سلامتی کونسل میں یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کی بازگشت
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 فروری 2025ء) سیاسی امور اور قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے یورپ میروسلاو جینکا نے کہا ہے کہ یوکرین میں امن معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کے مطابق ہونا چاہیے جس میں ملک کی خودمختاری، آزادی اور سلامتی کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کو تین سال مکمل ہونے سے قبل اس معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں اور منصفانہ و پائیدار امن کے لیے سفارتی کوششوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔
اقوام متحدہ اس مسئلے کے تمام فریقین کے مابین بات چیت اور قیام امن کے لیے کی جانی والی تمام حقیقی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ایسی کوششوں میں یوکرین اور روس کی مکمل شرکت ہونی چاہیے اور ان کے ذریعے شہریوں پر جنگ کے تباہ کن اثرات میں کمی لانے اور کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملنی چاہیے۔
(جاری ہے)
خودمختاری کے احترام کا مطالبہمیروسلاوو جینکا نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ کسی بھی پرامن تصفیے میں بین الاقوامی قانون اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق یوکرین کی آزادی و خودمختاری کا احترام یقینی بنانا ہو گا۔
سلامتی کونسل کا یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب اس کی جانب سے قرارداد 2202 کی منظوری کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ روس کی جانب سے یوکرین کے علاقے کرائمیا کا اپنے ساتھ الحاق کیے جانے کے بعد 2015 میں طے پانے والے منسک معاہدوں کی اس قرارداد کے ذریعے توثیق کی گئی تھی۔
سلامتی کونسل کے ارکان کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کردہ اس قرارداد کے ساتھ 'اقدامات کا پیکیج' بھی منسلک تھا جس میں یوکرین کے علاقے دونیسک اور لوہانسک میں فوری اور جامع جنگ بندی کی بات کی گئی تھی۔
قرارداد کے مطابق، فریقین نے اپنے تمام بھاری ہتھیار متنازع علاقے سے پیچھے ہٹانا تھے تاکہ ان کے مابین ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جا سکے۔حقیقی سیاسی عزم کی ضرورتاسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قرارداد کی 10ویں سالگرہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ماضی میں کی گئی کوششوں کی ایک واضح یاد دہانی اور بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے امن قائم کرنے میں ناکامی کے نتائج پر غوروفکر کا موقع بھی ہے۔
انہوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی نگرانی کرنے اور بات چیت میں سہولت دینے کے لیے یورپی ادارہ برائے سلامتی و تعاون (او ایس سی ای) کے خصوصی نگران مشن کے آٹھ سالہ کام کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کام کی بدولت مستقبل میں سفارتی کوششوں کے حوالے سے اہم اسباق حاصل ہوئے ہیں۔
میروسلاوو جینکا نے کہا کہ منسک معاہدوں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ محض جنگ بندی پر اتفاق رائے اور معاہدوں پر دستخط تشدد کے پائیدار طور سے خاتمے کی ضمانت نہیں ہوتے۔ تنازع کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنا حقیقی سیاسی عزم کے علاوہ یوکرین اور پورے خطے کے لیے اس مسئلے کی کثیرالجہتی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا تقاضا کرتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سلامتی کونسل اقوام متحدہ سلامتی کو کے لیے
پڑھیں:
علاقائی راہداریوں، تجارتی روابط اور جنوبی-جنوبی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب
واشنگٹن ڈی سی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2025ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے جغرافیائی سیاسی صورتحال، تجارتی تقسیم اور تحفظ پسندی جیسے عالمی اقتصادی چیلنجز کے تناظر میں اصلاحات کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی راہداریوں، تجارتی روابط اور جنوبی-جنوبی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے،صوبوں سے اشتراک کے تحت قومی مالیاتی معاہدہ پر عملدرآمد کے ذریعے پائیدار اقتصادی بنیادیں استوار کر رہے ہیں۔یہ بات انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) اور عالمی بنک کے موسم بہارکے سالانہ اجلاس کے دوسرے دن اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے دوران کی ،ملاقاتوں میں پاکستان کی معاشی استحکام، جاری اصلاحات اور سرمایہ کاری کے مواقع پر توجہ مرکوز کی گئی۔(جاری ہے)
وزیر خزانہ نے دن کا آغاز جی-24 وزرائے خزانہ و مرکزی بینک گورنرز کے اجلاس میں شرکت سے کیا، جہاں انہوں نے بطور سیکنڈ وائس چیئر پاکستان کی نمائندگی کی۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مضبوط بنکاری نظام اور مسلسل ساختی اصلاحات کے ذریعے کلی معیشت کو استحکام حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے عالمی اقتصادی چیلنجز جیسے جغرافیائی سیاسی صورتحال، تجارتی تقسیم اور تحفظ پسندی کے تناظر میں اصلاحات کے تسلسل کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی، علاقائی راہداریوں، تجارتی روابط اور جنوبی-جنوبی تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت بھی بیان کی۔وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی زیرِ صدارت’’درمیانی مدت میں ریونیو موبلائزیشن‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک مذاکرے میں زراعت، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیل جیسے شعبوں سے جی ڈی پی کے تناسب سے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی بیان کی۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکمت عملیوں میں اہم معاشی شعبوں سے محصولات میں اضافہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کی بہتری، ٹیکس دہندگان اور افسران کے مابین براہِ راست روابط میں کمی، نفاذ اور تعمیل کو مضبوط بنانا، اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے حسبِ ضرورت آڈٹس شامل ہیں۔وزیر خزانہ نے معروف امریکی تھینک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر میں فائر سائیڈ چیٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے’’2025 اور اس کے بعد پاکستانی معیشت کے چیلنجز اور مواقع ‘‘پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن، صوبوں کی ٹیکس وصولی میں شمولیت، اور زرعی آمدن ٹیکس پر صوبائی قانون سازی جیسے اصلاحاتی ایجنڈے پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ وفاقی اخراجات میں کفایت شعاری اور صوبوں سے اشتراک کے تحت قومی مالیاتی معاہدہ پر عملدرآمد کے ذریعے ہم پائیدار اقتصادی بنیادیں استوار کر رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے موسمیاتی تبدیلی اور آبادی جیسے چیلنجز پر بھی گفتگو کی، اورعالمی بنک کے پاکستان کے لیے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا ذکر کیا۔ انہوں نے حکومت کے پانڈا بانڈ کے اجراء کے عزم کا اظہار کیا اور مالیاتی اداروں کی جانب سے خطرات کے تجزیے میں تعاون کو سراہا۔وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان سٹیٹ بینک کے ذریعے گرین ٹیکسانامی فریم ورک کو حتمی شکل دے رہا ہے جس سے گرین بانڈز، گرین سکوکس اور پاکستان کے پہلے پانڈا بانڈ جیسے جدید مالیاتی آلات کی راہ ہموار کرے گا، جن کی آمدنی پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بہتری کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے، وزیر خزانہ نے کہا کہ جلد ہی ایک اعلیٰ سطح پاکستانی وفد امریکہ کا دورہ کرے گا تاکہ تجارتی عدم توازن جیسے مسائل پر تعمیری روابط قائم کیے جا سکیں۔ادارہ جاتی سرمایہ کاروں سے ملاقات میں، وزیر خزانہ نے پاکستان کے معاشی منظرنامے، مالی و زری پالیسیوں اور اصلاحاتی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ انہوں نےکلی معیشت کے استحکام اور کریڈٹ ریٹنگ کی بین الاقوامی ایجنسی ’’ فچ‘‘کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کو اجاگر کیا، جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں واپسی کے راستے کھلے۔وزیر خزانہ نے عالمی بنک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن رائزر سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے 10 سالہ کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کی منظوری پر شکریہ ادا کیا اور اس کے فوری نفاذ، نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ اور منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حل پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر خزانہ نے ڈوئچے بینک کی ٹیم سے ملاقات کی، جس کی قیادت مینا ریجن کی منیجنگ ڈائریکٹر میریئم اوآزانی کر رہی تھیں۔ وزیر خزانہ نے بہتر معاشی استحکام اور کریڈٹ ریٹنگ کی بنیاد پر پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں واپسی، بشمول پانڈا اور ای ایس جی بانڈز کے اجراء میں دلچسپی ظاہر کی۔موڈیز کی کمرشل ٹیم سے علیحدہ ملاقات میں وزیر خزانہ نے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، کم ہوتی ہوئی مہنگائی، مستحکم ایکسچینج ریٹ، اور زرمبادلہ کے ذخائر پر روشنی ڈالی۔ پانڈا بانڈ کے منصوبے پر بھی بات ہوئی اور دونوں فریقین نے مستقبل میں تعاون کے امکانات پر اتفاق کیا۔وزیر خزانہ نے سعودی فنڈ برائے ترقی کے سی ای او سلطان بن عبد الرحمن المرشد سے اہم اور نتیجہ خیز ملاقات کی۔ انہوں نے سعودی عرب میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کی کانفرنس اور سعودی وزیر خزانہ سے اپنی سابقہ ملاقات کا حوالہ دیا۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کے بہتر ہوتے میکرو اکنامک اعشاریوں، بشمول موڈیز کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری سے آگاہ کیا۔وزیر خزانہ نے حکومتوں اور نجی شعبے کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے، سعودی آئل سہولت کے تحت فنڈز کی فوری فراہمی کی درخواست کی اور تیل کی شپمنٹ سے متعلق دستاویزات کی بروقت فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔ فریقین نے موجودہ پورٹ فولیو کا جائزہ لیا اور پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا، جبکہ وزیر خزانہ نے سعودی فنڈ سے این ۔25 منصوبے کے لیے مالی معاونت کی درخواست کی۔