Express News:
2025-09-18@13:07:16 GMT

رجب طیب اردگان کا دورہ پاکستان

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا پاکستان کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کے غیر معمولی تعلقات کے حوالے سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ان کا دو روزہ دورہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر اردگان کے اس دورے کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اُن کی آمد کے موقعے پر دارالخلافہ اسلام آباد دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ جوں ہی صدر اردگان کے طیارے نے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ پورا ماحول اردگان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔

 وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ دونوں معززین نے آگے بڑھ کر صدر اردگان کا پرتپاک اور پُر زور استقبال کیا۔ صدر اردگان کا چہرہ انتہائی مسرت سے چمک دمک رہا تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا، اگرچہ صدر اردگان کا یہ دورہ انتہائی مختصر تھا لیکن اس کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں ایک زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے درمیان انتہائی اہم معاملات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ پاکستان اور ترکی اسلامی ممالک کی کہکشاں کے دو تابندہ اور رخشندہ تاروں کی مانند ہے۔دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ یہ تعلقات اس وقت سے قائم ہیں جب پاکستان معرضِ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آڑے وقت پر اپنے ترک بھائی بہنوں کی تَن مَن دھن سے مدد کی تھی۔ ترکیہ کی تحریکِ خلافت کے نازک موڑ پر برصغیر کے مسلمان اپنے ترک ہم مذہبوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے قیمتی زیورات کو ترکیہ کی مدد کے لیے فروخت کردیا۔

بے مثل مسلم قائدین مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے اپنا سب کچھ ترک برادران کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان دونوں کی والدہ محترمہ جو بی اماں کے نام سے مشہور تھیں تحریکِ خلافت کی روح تھیں۔ اُن کے حوالے سے یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جسے سلوگن کی حیثیت حاصل ہوگئی ’’ بولیں اماں، محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔‘‘

 ترکیہ کے عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کو شدت سے چاہتے ہیں اور جب اُن کی ملاقات کسی پاکستانی سے ہوتی ہے تو ان کی کیفیت قابلِ دید ہوتی ہے۔ آر سی ڈی کے نام سے ترکی، ایران اور پاکستان کی مشترکہ تنظیم معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اُسے ایک مثلث کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔

ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ تعلیم اور ثقافت کے علاوہ دفاع اور معاشی شعبوں میں باہمی اشتراک کو بڑھاوا دینے سے دونوں ملکوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پاک ترک دوستی کا سب سے نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ترکیہ نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی کھُلم کھلا اور بھرپور حمایت کی ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا نہایت کامیاب دورہِ پاکستان اُن کے لیے اپنے گھر آنے جیسا تھا۔ وہ اپنی مختلف سرکاری حیثیتوں سے پاکستان کے پانچ دورے کر چکے ہیں۔ صدر اردگان نے پاکستان کا پہلا دورہ 2003 میں ترکیہ کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے کیا تھا جس کا مقصد دفاعی شعبے میں باہمی تعاون بڑھانا تھا۔

اس کے بعد وہ دوسری مرتبہ 2009 میں دوبارہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے تھے، اِس کے بعد انھوں نے پاکستان کے مزید کئی دورے کیے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ عوام کو ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ طیب اردگان کے پاکستان کے دوروں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دونوں ممالک کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط اور وسیع سے وسیع ترکرنا۔ بین الاقوامی حلقوں میں ان دوروں کو انتہائی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طیب اردگان صدر اردگان نے پاکستان پاکستان کے اردگان کا پاکستان ا ترکیہ کے کی حیثیت کے لیے

پڑھیں:

تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-03-7
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان، چین اور روس کا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ چین دفاعی اور اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔ خصوصاً اس وقت جب سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے کلیدی اقتصادی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپلز میں صدر شی جن پنگ ہے ملاقات وزیر اعظم نے صدر شی کو 2026ء میں پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ گرمجوش مصافحے سے شروع ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور پاکستان ان روابط کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور روس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

صدر پیوٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر انہیں شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایس سی او سمٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ روس کا دورہ کر کے انہیں خوشی ہوگی۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کو مختلف شعبوں میں مل کر آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں ممالک عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی متوازن اور آزادانہ حیثیت کے باعث عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ شہباز شریف کی چین اور روس کے سربراہان سے ملاقاتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی ترقی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے مضبوط شراکت دار ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت نہ صرف دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ روس کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا احترام کیا ہے لیکن اپنی آزادانہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ روس کے صدر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دینا اور عالمی فورم جیسے اقوام متحدہ میں مشترکہ موقف کی حمایت اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک خطے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ چین، روس، اور امریکا جیسے بڑے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ تو کسی ایک عالمی طاقت کے بلاک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے خلاف وہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون خطے میں امن، معاشی ترقی، اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی، روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی اور تجارتی شراکت داری، اور عالمی فورمز میں مشترکہ موقف خطے کو عالمی سیاست کے پیچیدہ منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک ذمے دار کردار ادا کر رہا ہے۔

پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک یا بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔ بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔

کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف دورۂ سعودی عرب مکمل کر کے لندن روانہ
  • وزیراعظم شہباز شریف دورۂ سعودی عرب مکمل کرکے لندن روانہ ہوگئے
  • وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا سرکاری دورہ مکمل کر کے لندن روانہ
  • یہ بہیمیہ بہیمت اور یہ لجاجتت اور یہ لجاجت
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • ہم بیت المقدس پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، رجب طیب اردگان
  • وزیرصحت مصطفی کمال کی ترکیہ سفیر ڈاکٹر مہمت پاجا جی سے ملاقات ، ڈاکٹرز اور نرسز کی باہمی تعلیمی شراکت داری کے فروغ پر تبادلہ خیال
  • تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
  • صیہونی عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، رجب طیب اردگان
  • بلاول بھٹو زرداری نے چین کی 120 سالہ قدیم فودان یونیورسٹی کا دورہ