رجب طیب اردگان کا دورہ پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا پاکستان کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کے غیر معمولی تعلقات کے حوالے سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، ان کا دو روزہ دورہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر اردگان کے اس دورے کا بڑی بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اُن کی آمد کے موقعے پر دارالخلافہ اسلام آباد دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ جوں ہی صدر اردگان کے طیارے نے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ پورا ماحول اردگان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ دونوں معززین نے آگے بڑھ کر صدر اردگان کا پرتپاک اور پُر زور استقبال کیا۔ صدر اردگان کا چہرہ انتہائی مسرت سے چمک دمک رہا تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے اس منظر کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا، اگرچہ صدر اردگان کا یہ دورہ انتہائی مختصر تھا لیکن اس کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں ایک زبردست پیش رفت ہوئی ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے درمیان انتہائی اہم معاملات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ پاکستان اور ترکی اسلامی ممالک کی کہکشاں کے دو تابندہ اور رخشندہ تاروں کی مانند ہے۔دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں نہایت گہری ہیں۔ یہ تعلقات اس وقت سے قائم ہیں جب پاکستان معرضِ وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے آڑے وقت پر اپنے ترک بھائی بہنوں کی تَن مَن دھن سے مدد کی تھی۔ ترکیہ کی تحریکِ خلافت کے نازک موڑ پر برصغیر کے مسلمان اپنے ترک ہم مذہبوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے اپنے قیمتی زیورات کو ترکیہ کی مدد کے لیے فروخت کردیا۔
بے مثل مسلم قائدین مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے اپنا سب کچھ ترک برادران کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان دونوں کی والدہ محترمہ جو بی اماں کے نام سے مشہور تھیں تحریکِ خلافت کی روح تھیں۔ اُن کے حوالے سے یہ فقرہ بہت مشہور ہوا جسے سلوگن کی حیثیت حاصل ہوگئی ’’ بولیں اماں، محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔‘‘
ترکیہ کے عوام اپنے پاکستانی بھائیوں کو شدت سے چاہتے ہیں اور جب اُن کی ملاقات کسی پاکستانی سے ہوتی ہے تو ان کی کیفیت قابلِ دید ہوتی ہے۔ آر سی ڈی کے نام سے ترکی، ایران اور پاکستان کی مشترکہ تنظیم معرضِ وجود میں آئی تھی۔ اُسے ایک مثلث کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔
ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ تعلیم اور ثقافت کے علاوہ دفاع اور معاشی شعبوں میں باہمی اشتراک کو بڑھاوا دینے سے دونوں ملکوں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پاک ترک دوستی کا سب سے نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ترکیہ نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی کھُلم کھلا اور بھرپور حمایت کی ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کا نہایت کامیاب دورہِ پاکستان اُن کے لیے اپنے گھر آنے جیسا تھا۔ وہ اپنی مختلف سرکاری حیثیتوں سے پاکستان کے پانچ دورے کر چکے ہیں۔ صدر اردگان نے پاکستان کا پہلا دورہ 2003 میں ترکیہ کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے کیا تھا جس کا مقصد دفاعی شعبے میں باہمی تعاون بڑھانا تھا۔
اس کے بعد وہ دوسری مرتبہ 2009 میں دوبارہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پاکستان تشریف لائے تھے، اِس کے بعد انھوں نے پاکستان کے مزید کئی دورے کیے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ عوام کو ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ طیب اردگان کے پاکستان کے دوروں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دونوں ممالک کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط اور وسیع سے وسیع ترکرنا۔ بین الاقوامی حلقوں میں ان دوروں کو انتہائی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طیب اردگان صدر اردگان نے پاکستان پاکستان کے اردگان کا پاکستان ا ترکیہ کے کی حیثیت کے لیے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔
اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔
پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔
جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔