WE News:
2025-07-11@09:50:53 GMT

اداکارہ حمیرا اصغرکی المناک موت کے چند پہلو

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

   کراچی کے ایک فلیٹ سے اداکارہ حمیرا اصغر کی کئی ماہ پرانی لاش برآمد ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا میں اس پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ مختلف زاویوں سے بات ہو رہی ہے، ایک منفی کمپین بھی ساتھ چلائی گئی ، مرحومہ پر بہت سے الزامات لگے اور پھر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ یہ ایشو بھی خلط مبحث کا شکار ہوگیا۔ لبرلز، اینٹی لبرلز، فیمنسٹ ، اینٹی فیمنسٹ کی سوشل میڈیائی جنگ اس پر جاری ہے۔

  ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ جو بات جیسی ہے ، ویسی بیان کی جائے اور رائے دیتے ہوئے توازن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ اس المناک موت سے جڑے بعض پہلووں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔

 حمیرا اصغر کا قندیل بلوچ سے موازنہ زیادتی ہے

 بعض لوگوں نے مرحومہ حمیرا اصغر کا مقتولہ قندیل بلوچ سے موازنہ کیا۔ یہ غلط موازنہ ہے۔ قندیل بلوچ کا قتل ہوا جو سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ ہر بے گناہ موت ظلم ہے اور کسی گناہ گار کو بھی صرف ریاست ہی سزا دے سکتی ہے، انفرادی طور پر قانون ہاتھ میں لینے والا ظالم اور غلط ہے۔

  تاہم قندیل بلوچ اداکارہ تھی نہ گلوکارہ ، حقیقت یہ ہے کہ وہ پرفارمنگ آرٹسٹ بھی نہیں تھیں۔ حتیٰ کہ ان کی  موت کے بعد میڈیا کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نام کے ساتھ کیا ٹائٹل استعمال کرے؟ اداکارہ نہیں لکھ سکتے تھے کہ ایک بھی ڈرامے میں کام نہیں کیا، ماڈل نہیں کہہ سکتے تھے کہ ماڈلنگ بھی نہیں کی، گلوکارہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ موسیقی کے ایک مقابلے میں حصہ لیا مگر بری طرح ناکام ہوگئی ۔آج کل کا واقعہ ہوتا تو سوشل میڈیا انفلیونسر کہہ دیتے، مگر تب یہ اصطلاح بھی ابھی نہیں آئی تھی۔

  مرحومہ حمیرا اصغر ایک پروفیشنل اداکارہ تھیں، جنہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے ساتھ آرٹ تھیٹر میں بھی خاصا کام کر رکھا ہے۔ اداکاری کو انہوں نے بطور پروفیشن اپنایا اور ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ حمیرا اصغر پبلسٹی مونگر تھیں اور نہ ہی سستی شہرت حاصل کرنے کے حربے آزمائے۔ ان کے تعلقات بھی بہت محدود تھے اور خاصی تنگی ترشی میں وقت گزارنے کے باوجود اپنے وقار سے گرنا گوارا نہیں کیا تھا۔

   قندیل بلوچ کے والدین کو مرحومہ کی ایکٹویٹیز پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے تو قاتل بھائیوں کو بھی نہیں تھا، یہ تو جب شناختی کارڈ سامنے آیا، اصل نام اور علاقے کا پتہ چلا تب شور مچا اور نام نہاد غیرت کے نام پر وہ افسوسناک واقعہ ہوا۔ حمیرا اصغر کے والدین کو البتہ حمیرا کے شوبز کیرئیر  پر  شدید اعتراضات تھے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے قطع تعلق کر رکھا تھا۔

  حمیرا اصغر نے این سی اے میں تعلیم نہیں پائی

 مرحومہ حمیرا اصغر کے بارے میں یہ خبر آئی کہ انہوں نے لاہور کے مشہور فائن آرٹس کالج این سی اے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ایسا نہیں ہے۔ حمیرا اصغر نے پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ یعنی کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن سے ایم ایف اے (ماسٹر ان فائن آرٹس)کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کی سپیشلٹی پینٹنگ تھی۔

  یہ فرق بظاہر تو عام سا لگتا ہے کہ دونوں فائن آرٹس کے ادارے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے این سی اے سے یا پنجاب یونیورسٹی سے؟ لاہور میں رہنے والے اور ان دونوں تعلیمی اداروں کا وزٹ کرنے والے میری بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ دونوں اداروں کے ماحول میں خاصا فرق ہے۔ این سی اے بہت اچھا ادارہ ہے، مگر اس کا ماحول نسبتاً آزادانہ اور ماڈرن ہے۔ دراصل این سی اے میں پنجاب یونیورسٹی میں سرگرم ایک معروف مذہبی طلبہ تنظیم کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ موجودگی ہی نہیں۔

  پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا ماحول نسبتاً زیادہ پابندیوں کا شکار ہے۔ مورل پولیسنگ کی جھلک بھی مل جائے گی۔ یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں موسیقی کی کلاسز شروع ہوئیں تو انہیں یونیورسٹی کیمپس میں دیگر شعبوں (پینٹنگ، ڈیزائن، آرکیٹکچر،ٹیکسٹائل ڈیزائننگ وغیرہ )کے ساتھ پڑھانا ممکن نہیں تھا۔ یہ کلاسز پھر الحمرا آرٹس کونسل میں شروع ہوئیں اور ابھی تک وہیں ہورہی ہیں۔

  یہ بات اس لیے بھی لکھی ہے کہ ایک صاحب علم لکھاری نے فیس بک پر پوسٹ لکھی کہ مرحومہ اداکارہ کے والد نے اسے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے این سی اے بھیج دیا مگر شوبز کو کیرئیر بنانے پر کیوں اعتراض تھا؟

  انہیں شاید علم نہیں کہ کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن میں ایکٹنگ کی کلاسز نہیں ہوتیں۔ یہاں کے  بڑے شعبوں میں گرافک ڈیزائننگ، پینٹنگ، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ اور آرکیٹیکچر شامل ہے، مختصر سا ایک شعبہ میوزکالوجی کا ہے جس میں موسیقی سکھائی جاتی ہے۔ فائن آرٹس میں ماسٹر کرنے اور شوبز کو پروفیشنل کیرئیر بنانے میں بہرحال فرق ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ کیا غلط ہے کیا درست، صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔

  مرحومہ ایک سنجیدہ پروفیشنل ادکارہ تھیں

  حمیرا اصغر نے پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم پانے کےدوران وہاں کی سٹیج ڈرامہ کرنے والی یونیورسٹی باڈی ’ناٹک‘ کے پلیٹ فارم سے کئی ڈراموں میں حصہ لیا اور ان پر ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ ہمارے ایک کولیگ ابراہیم شہزاد میرے میگزین سیکشن میں بطور ڈیزائنر برسوں کام کرتے رہے۔ ابراہیم بہت عمدہ گرافک ڈیزائنر ہیں، میری دوسری کتاب ’زنگارنامہ‘ کا ٹائٹل بھی انہوں نے ڈیزائن کیا تھا۔ ابراہیم شہزاد مرحومہ حمیرا اصغر کے کلاس فیلو تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے پوسٹ بھی لکھی۔ میں نے ان سے فون پر تفصیل بھی پوچھی۔ ابراہیم شہزاد کہتے ہیں ،حمیرا اصغر ابتدا ہی سے بہت سنجیدہ اور ریزرو طالبہ تھیں۔ ساتھی مرد طالب علموں کے ساتھ تو کیا اٹھتی بیٹھتیں، ان کے دوستوں میں ساتھی طالبات بھی شامل نہیں تھیں۔

  ابراہیم شہزاد کے بقول حمیرا اصغر کی تمام تر دلچسپی ’ناٹک ‘کے ڈراموں میں تھی، وہاں وہ شوق سے حصہ لیتی اور ایکٹنگ انہیں بہت پسند تھی۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر احمد بلال کے ایک ڈرامہ ’خاموش چیخ‘ میں عمدہ کارکردگی پر رفیع پیر سالانہ فیسٹول میں حمیرا کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا۔ انہوں نے سویرا فاؤنڈیشن سے ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ پروفیسر احمد بلال سے حمیرا اصغر کا بعد میں بھی رابطہ رہا۔

احمد بلال صاحب کے بقول،’ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم لو گرو میں حمیرا کا مختصر کردار تھا، فلم دیکھ کر باہر نکلا تو اسے فون کیا، مگر موبائل فون آف تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید کسی شوٹنگ میں مصروف ہو، بعد میں فون کر لے گی، یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ دنیا ہی سے جا چکی ہے۔‘

  ابراہیم شہزاد کے  مطابق آج کل کئی ماڈرن لڑکیاں شوقیہ سگریٹ پی لیتی ہیں جبکہ شوبز کے ماحول میں تو ویسے بھی پابندیاں کم ہیں، مگر حمیرا اصغر نے کبھی سگریٹ پی اور نہ ہی اس کے بارے میں کبھی کسی نشہ کے استعمال کا سنا تھا۔ وہ ان سب سے دور اور ماورا تھی۔

  اپنی کلاس فیلو کی ناگہانی موت پر افسردہ ابراہیم شہزاد نے یاد کیا کہ وہ آخری بار نومبر 2023 میں حمیرا اصغر سے لاہور میں ملے تھے۔ انہیں وہ کسی قدر اداس اور کچھ ڈپریس محسوس ہوئیں، مگر حمیرا اصغر اپنے نجی معاملات کو محدود رکھتی تھیں، وہ اس حوالے سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ ان کی فیملی ان کے کیرئیر کے فیصلے پر ساتھ تھی یا نہیں، اس پر بھی حمیرا نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ البتہ انہیں یہ امید اور خوش گمانی ضرور تھی کہ   محنت رنگ لائے گی اور ایک دن ان کا شمار نمایاں اداکاروں میں ہوگا۔ اپنے ٹیچر پروفیسر احمد بلال کو ایک بار یہ بھی کہا کہ ایک دن آئے گا کہ ان کے والدین ان کا کام دیکھ کر اسے فخر سے گلے لگائیں گے۔

 اس المناک موت کو فیمنزم، اینٹی فیمنزم میں نہ الجھائیں

    سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے جس میں حمیرا اصغر کی موت کو فیمنزم کی ایک بدترین مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ وقت ان بحثوں میں الجھنے کا نہیں۔ حمیرا اصغر ایک دھیمے مزاج کی ایک پروفیشنل اداکارہ تھیں، جنہیں ناٹک اور اداکاری میں دلچسپی تھی، انہوں نے اپنی پسند پوری کرنا چاہی، اپنے حساب اور طریقے سےزندگی جینے کی خواہش کی۔

  کوئی  مانے یا نہ مانے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں کسی لڑکے کے لیے ایسا کرنا آسان ہے، بہت سی وجوہات کی بنا پر خواتین یا لڑکیوں کے لیے ایسا کرنا ازحد دشوار اور کٹھن ہے۔ والدین کے لیے بھی یقینی طور پر آسان نہیں کہ اپنی بیٹی کے کراچی جیسے بڑے شہر میں تنہا زندگی گزارنے کے فیصلے کی تائید کریں۔ فیملی کی مخالفت پر بہت سی لڑکیاں کمپرومائز کر لیتی ہیں، گھر بسا لیتی ہیں یا اپنے شہر کی محفوظ اور پروٹیکٹڈ فضا میں جو تھوڑآ بہت کام ملے، وہ کر لیا۔ اپنے شعبے میں مگر ٹاپ پر جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانا پڑتی ہے۔

  اس سب کچھ کی ظاہر ہے ایک قیمت ہے اور اس کیس میں تو مرحومہ نے خاصی بھاری اور تکلیف دہ قیمت بھی ادا کی۔ دو چار اچھی اشتہاری کمپینز، درمیانے لیول کے چند چھوٹے  موٹے کردار، فلموں میں مختصر کردار اور بس ،جبکہ غیر مستقل آمدنی ، ڈھلتی عمر کا چیلنج، تنہائی کا زہر اور شاید ڈپریشن کے مہلک عارضہ جیسے آسیب کا سامنا۔

اس واقعے سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟

  ضروری تو نہیں کہ ہماری بچپن کی کہانیوں کی طرح ہر کہانی کا کوئی اخلاقی انجام (Moral)ہو، لیکن آپ نے اتنا پڑھا ہے تو کچھ سبق اخذ کرنا ہی چاہیے ۔

   سبق تو 2 ہی نکلتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنی فیملی سے جڑے رہنا چاہیے، آخری تجزیے میں سوشل میڈیائی تعلقات نہیں بلکہ اپنے خونی رشتے ہی کام آتے ہیں۔ اگر قریبی رشتوں میں کچھ تلخ اور تکلیف دہ ہوا ہے تو پھر نئے تعلق بنائے جائیں کیونکہ  سوشلی  کٹ کر تنہا ہوجانا زیادہ خطرناک ہے۔ جب مشکل وقت چل رہا ہو تب اموشنل سپورٹ چاہیے ہوتی ہے، اور اگر آپ نے اپنی تیس، پینتیس، چالیس سالہ زندگی میں ایسی اموشنل سپورٹ دینے والے تعلق یا رشتے نہیں بنائے تو پھراس میں صرف دوسروں کا نہیں، آپ کا اپنا بھی قصور ہے کیونکہ تعلق دوطرفہ طور پر بنتے ہیں۔

  دوسرا سبق یہی ہے کہ ہم اپنی تیز رفتار، بھاگتی دوڑتی زندگی کے باوجود کچھ ساعتیں رک کر ایسے رشتوں، تعلق اور ان افراد کے لیے بھی وقت نکالیں جنہیں سفاک وقت نے تنہا اور کمزور کر دیا ہے۔ یہی تعلق ہی انسان اور انسانیت کا ثبوت ہے۔

  بہت پہلے ایک برطانوی ماہر عمرانیات کی کوٹیشن پڑھی تھی کہ تہذیب کی ابتدا تب ہوئی جب قدیم زمانے  میں جنگلوں میں رہنے والے کسی انسان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی اور اسے وہیں چھوڑ کر جانے کے بجائے ساتھ والوں نے سہارا دیا، ٹوٹی ہڈی کی دیکھ بھال کی اور زندگی میں دوبارہ کھینچ لائے۔

   مرحومہ عائشہ خان کے بعد مرحومہ حمیرا اصغر کی دردناک کہانیاں ہمیں بتا رہی ہیں کہ ہم کہیں کچھ بھول چکے ہیں، وہ سبق پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنے حلقے اور دائرہ اثر میں دیکھیں، کہیں کوئی اور عائشہ خان یا حمیرا اصغر ہماری توجہ، ہمدردی اور وقت کی خاموش طلب گار تو نہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اداکارہ حمیرا اصغر اداکارہ عائشہ خان عامر خاکوانی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداکارہ حمیرا اصغر اداکارہ عائشہ خان

پڑھیں:

حمیرا اصغر لاوارث نہیں‘ صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت کا اداکارہ کی تدفین کروانے کا فیصلہ’

صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت سید ذوالفقار علی شاہ نے محکمے کی جانب سے اداکارہ حمیرا اصغر کی تدفین کرانے کا فیصلہ کرلیا۔

رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر سید ذوالفقار علی شاہ کا ایڈیشنل آئی جی کراچی سے رابطہ کیا اور ان سے اداکارہ حمیرا اصغر کی تدفین کے معاملے پر گفتگو کی۔ 

صوبائی وزیر نے ڈائریکٹر جنرل کلچر کو معاملے پر فوکل پرسن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم اداکارہ حمیرا اصغر کے ورثاء اگر لاش وصول یا تدفین نہیں کرتے تو محکمہ ثقافت حمیرا اصغر کا وارث ہوگا۔

صوبائی وزیر سید ذوالفقار علی شاہ سیکریٹری ثقافت سندھ نے ڈی آئی جی ایسٹ کو لاش حوالگی کیلئے خط بھی ارسال کردیا۔ خط میں کہا گیا کہ مرحوم حمیرا اصغر لاوارث نہیں سندھ حکومت محکمہ ثقافت وارث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حمیرا اصغر کا واقعہ افسوسناک اور دل دہلانے والا واقعہ ہے۔ تدفین قبرستان سمیت تمام مراحل محکمہ ثقافت کے ذمہ ہوگا۔

سید ذوالفقار علی شاہ نے مزید کہا کہ ہماری پہلی کوشش ہے کہ والدین راضی ہوں اور لاش وصول کریں۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ پولیس کے تعاون سے اس معاملے پر محکمہ ثقافت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لے کر بھائی لاہور روانہ ہوگئے
  • اداکارہ حمیرا اصغر کیس کا نیا رخ ؛ وزیر اعظم پورٹل پر قتل قرار دیا گیا
  • حمیرا اصغر پر تشدد، منشیات یا مشتبہ سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، پولیس
  • حمیرا اصغر لاوارث نہیں، صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت کا اداکارہ کی تدفین کروانے کا فیصلہ
  • حمیرا اصغر لاوارث نہیں‘ صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت کا اداکارہ کی تدفین کروانے کا فیصلہ’
  • حمیرا اصغر کے والدین نہیں آتے تو مجھے تدفین کی اجازت دی جائے، اداکارہ سونیا حسین
  • اداکارہ حمیرا اصغر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری، پولیس کا کیا کہنا ہے؟
  • بیٹی کی لاش لینے نہیں آؤں گا، حمیرا اصغر کے والد نے ایسا کیوں کہا؟
  • اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش فلیٹ سے برآمد