WE News:
2025-08-01@12:48:21 GMT

کیا کوئٹہ کا پانی پینے کے لیے غیر موزوں ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

وادی کوئٹہ میں ایک جانب جہاں زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1200 فٹ تک جا پہنچی ہے وہیں حاصل کردہ پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہا۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ انوائرمینٹل سائنسز کے استاد تیمور شاہ درانی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئٹہ کے مختلف علاقوں سے زیر زمین پانی کے نمونے حاصل کیے جن میں فلورائیڈ کی مقدار غیر متوازن پائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں قیمتی نگینوں کے کاروبار کا انوکھا طریقہ

تیمور شاہ درانی نے کہا کہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کم ہے جبکہ بعض علاقوں میں اس کی مقدار زیادہ ہے لہٰذا پتا یہ چلا ہے کہ شہر کا 52 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: کوئٹہ کی ایسی مارکیٹ جہاں پرندے ہول سیل ریٹ پر ملتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ بارش کے بعد پہاڑوں سے بہہ کر پانی چھوٹے چھوٹے ندی نالوں کے ذریعے زمین میں جذب ہوتا ہے اور پھر اس پانی کو بورنگ کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور سیدھے گھروں تک بھیج دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ درمیان میں اس پانی کو کہیں بھی ٹریٹ نہیں کیا جاتا لہٰذا فلورائیڈ کی غیر متوازن مقدار ہونے کے سب یہ پانی استعمال کرنے والے افراد کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسم میں فلورائیڈ کی کمی یا زیادتی دانتوں اور جوڑوں کے امراض میں مبتلا کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: ’ہر بار دوائیاں باہر سے لانا پڑتی ہیں‘، سول اسپتال کوئٹہ میں عوام ادویات سے محروم کیوں؟

تیمور شاہ درانی نے بتایا کہ اگر حکومت اس پانی کو باقاعدہ صاف کر کے اس میں مناسب معدنیات شامل کرنے کے بعد عوام کو فراہم کرے تو کوئٹہ کا پانی پینے کے لیے ملک بھر میں سب سے بہتر ثابت ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کوئٹہ کوئٹہ کا پانی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کوئٹہ کوئٹہ کا پانی کی مقدار پینے کے

پڑھیں:

جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً جرائم پر مجبور کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات اٹھائیں اور متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی یقینی بنائیں۔

آن لائن دھوکہ دہی سے منشیات کی سمگلنگ اور چوری تک ایسے بہت سے جرائم دانستہ ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو خود بھی بڑے مجرم گروہوں کی جانب سے دھوکے اور استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔

منظم جرائم میں ملوث گروہ تارکین وطن، بچوں اور نوجوانوں سمیت کمزور لوگوں کو دھوکے، دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے جرائم کے ارتکاب پر مجبور کرتے ہیں۔ Tweet URL

ایسے متاثرین کو عموماً نوکری کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جنہیں درپیش حالات جدید غلامی کے مترادف ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

'آئی او ایم' نے اسے انسانی سمگلنگ کا ایسا خوفناک پہلو قرار دیا ہے جس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ اس نے بہت بڑے عالمی کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، خوف پھیلتا ہے اور یہ انتہائی کمزور لوگوں کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔

استحصال کا شکار لوگوں کو سزا دینے کے بجائیے تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ایسا کیے بغیر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔لامتناہی استحصال

لوگوں کو دھوکہ دہی سے جرائم پر مجبور کرنے کا مسئلہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطے ایسے جرائم کا گڑھ ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو دھوکہ دہی کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

یہ لوگ تنہا رہتے ہیں، انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا اپنی زندگی پر اختیار چھین لیا جاتا ہے۔

جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے بچنے یا فرار ہونے کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے نام کے ساتھ جرم کا دھبہ موجود رہتا ہے، انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظام ان کے ساتھ متاثرین کے بجائے مجرموں کا سا برتاؤ کرتا ہے۔

اس طرح استحصال کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی ان کی لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوتیں۔

انسانی سمگلنگ کی یہ قسم منظم جرائم کا ایک بڑا محرک بھی ہے جس سے اندازاً سالانہ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ سمگلر ناصرف لوگوں کو جرائم پر مجبور کر کے منافع کماتے ہیں بلکہ متاثرین کو مجرم قرار دینے والا نظام انصاف بھی انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ جب متاثرین کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو انہیں ضروری مدد مہیا نہیں کی جاتی جبکہ نظام کی ناکامی اور بے عملی بڑے مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔

مجرم نہیں، متاثرین

'آئی او ایم' نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ متاثرین کو سزا نہ دینے کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور انہیں تحفظ، قانونی معاونت اور سماج میں کارآمد کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ جرائم پر مجبور کیے جانے والے ان لوگوں کو مجرموں کے بجائے متاثرہ سمجھنا اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں تزویراتی ضرورت بھی ہے۔

انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ان میں سے 78 فیصد کو جبری مشقت یا جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات، قدرتی آفات اور غربت کے باعث ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن سے لاکھوں ایسے لوگوں کے لیے استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔

'آئی او ایم' نے حکومتوں، بین الاقوامی شراکت داروں اور عام لوگوں پر اس مسئلے کے خلاف اجتماعی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی ضروری ہے۔ انہیں ایسے لوگ سمجھا جانا چاہیے جن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جن کے مستقبل کا دارومدار وقار اور انصاف کے لیے حکومتوں اور معاشروں کے عزم پر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ پراسرار طور پر زہریلی چیز پینے سے 35 سالہ خاتون جاں بحق
  • ملک میں چینی کی وافر مقدار دستیاب ہے، قیمتوں پر سختی سے عمل کیا جائے گا: رانا تنویر حسین
  • چینی وافر مقدار میں دستیاب ، قیمت بھی عام آدمی کی دسترس میں ہے ،برسات کے مینڈک کی طرح خاص وقت پر چینی کا ایشو اٹھا دیا جاتا ہے ، رانا تنویر حسین
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، چینی برآمد و درآمد پر غلط تاثر پیدا کیا جاتا ہے: رانا تنویر
  • جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
  • پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرکے اسٹیٹ بینک نے بزنس کمیونٹی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، احمد عظیم علوی
  • اسائلم کیسے لیا جاتا ہے، پاکستانی شہری اس کے سب سے زیادہ خواہاں کیوں؟
  • آغا روح اللہ کی کشمیریوں کو اجتماعی سزا دینے پر مودی حکومت اور بھارتی میڈیا پر کڑی تنقید
  • میرا ضمیر مجھے پاک بھارت میچ دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا؟ اسد الدین اویسی
  • صنفی بنیادوں پر خواتین کا قتل یا فیمی سائیڈ