Nai Baat:
2025-06-09@19:03:10 GMT

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

تصوف اسلامی معاشرت و ممالک اور خاص طور پر برصغیر میں روحانیت بعض ترک دنیا اور کچھ قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم دیتے ہیں۔ مسلمان علماء میں سے بہت سے متفق اور زیادہ تر غیر متفق ہی نہیں باقاعدہ معترض ہیں۔ اسلامی تاریخ میں تیسری ہجری میں اس کی شروعات کے شواہد ملتے ہیں۔ برصغیر میں بڑے علماء اور فقراء کے باقاعدہ آگے سلسلے چلتے جاتے ہیں لیکن انسانی تاریخ اور اس کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ تصوف پر صرف مسلمانوں کا قبضہ تصور کرنا سخت زیادتی ہے۔ انسان روح اور بدن کے سنگم کا نام ہے۔ روح کو ہمیشہ فطرت کے مطابق پاک جانا جاتا ہے جبکہ بدن بر تقاضا بشریت اس کے برعکس ہے۔ کسی شخص کے بشری تقاضوں پر روح حاوی ہو اور اپنا کردار ادا کرتی رہے تو وہ شخصیت روحانی شخصیت کہلاتی ہے۔ بشریت کے تقاضے انسان کا حسن مگر ان پر قابو پانا اور روح راج ہونا صوفی اور نیک سیرت ہونا ہے۔ بشری تقاضوں میں ڈوبا ہوا شخص معاشرتی حیوان کہلاتا ہے جب ایسا کیا جائے تو روح کا کچھ لینا دینا نہیں۔ روح کو آقا کریمؐ نے امر اللہ قرار دیا۔ اس کے تجربہ کیلئے کوئی اپنی ذات کی تلاشی لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ وہ ہر وقت ایک کی بجائے دو کیوں ہے۔ اگر بازار میں ہے تو اس کی توجہ گھر میں، گھر میں ہے تو توجہ دفتر میں ہے۔ یہ انسان سے جدا ہو کر اس کا اپنا آپ ہی اگر کہیں اور ہے اس کو روح کہا جا سکتا ہے۔ ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں، بدھوں غرض دنیا کے تمام مذاہب حتیٰ کہ ملحدین میں بھی صاحب تصوف لوگ پائے جاتے ہیں البتہ اسلامی حوالہ سے اس کا جائزہ لیا جائے تو تزکیہ نفس اور حصول قرب الٰہی و بارگاہ رسالتؐ میں شرف قبولیت اس کا مرکز ہے۔تصوف فرقہ واریت اور نفرت سے پاک ہوا کرتا ہے۔ اہل تصوف میں جن کو معراج حاصل ہو وہ صاحب کشف بھی ہوا کرتے ہیں جن کو القاء ہونا معمولی بات ہے۔ انسانوں کی انتہائی تھوڑی انگلیوں پر گنی جانے والی ہستیاں اس سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیت صاحب علم بھی ہو دینی علم کے علاوہ اس کو سائنسی علوم پر بھی دسترس ہو، علم العداد بھی ہو اور یہ انسانیت کا مبلغ ہونے کے ساتھ قرآنی آیات مبارکہ کے فضائل سے بھی بھرپور واقف ہو۔ اللہ پر اس کے اس کرم کو جب زبان ملے گی جب وہ بات کرے گا تو پھر لوگ اس کو پروفیسر جناب احمد رفیق اختر صاحب کے نام سے جانیں گے۔ آج ان کے معتقدین دنیا بھر میں پائے جاتے، ہزاروں گھرانے ان کی بات سنتے ہیں۔ آیات مبارکہ اور دعا جات کے علم اور انسانی مسائل ورد کے ذریعے حل ہونے کا کشف انہیں عطا ہوا ہے۔ یہ سلسلے آج کے نہیں یہ شاہ شمس تبریزی، مولانا رومی اور ڈاکٹر محمد اقبال تک صوفیاء کی تاریخ پر ماتھے کا جھومر ہوا کرتے ہیں۔ ان کی جلائی ہوئی جوت انسانوں میں موجود رہ کر انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جو دلوں کو اجالا کردار کو جلا بخشتی ہے اور سکون قلب کا سبب بنتی ہے۔ پروفیسر صاحب کا مجھے ایک دوست نے 2005ء میں بتایا کہ گوجر خان کے ہر شخص کے ہاتھ میں تسبیح اور اللہ کا ذکر پروفیسر صاحب کی تعلیمات کی بدولت ہے۔

پروفیسر صاحب کی بدولت تسبیح اور روحانی پاکیزگی ہی نہیں انسانی خدمت کی صورت میں لوگ ملتے ہیں جیسے سابق ایم این اے زمرد خان جو سویٹ ہوم کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں۔ وطن عزیز کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ اگست 2013 کو ملک سکندر نامی شخص نے ایک کار چوری کی اور کئی پولیس اہلکاروں کو بے بس کر لیا۔ بالآخر وہ بلیو ایریا میں جناح ایونیو کے وسط میں چلا گیا۔ جائے وقوعہ پر موجود پولیس ابتدائی طور پر اس شخص کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ یہ واقعہ چھ گھنٹے تک براہ راست نشر کیا گیا۔ کئی سیاست دانوں نے یرغمال بنانے والے کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ زمرد خان جائے وقوعہ پر صورت حال دیکھ رہا تھا جہاں اس نے بندوق بردار سے رابطہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ خان نے بندوق بردار کے ساتھ چند الفاظ کا تبادلہ کیا۔ بچوں سے مصافحہ کرتے ہوئے، خان نے اچانک اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں کھو گئے۔ بندوق بردار نے کئی گولیاں چلائیں تاہم خان زخمی ہونے سے بچ گیا۔ خان بچوں کی طرف بھاگا اور انہیں خطرے سے دور کر دیا۔ اس کے بعد دستیاب پولیس نے بندوق بردار کی ٹانگوں پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

گزشتہ روز پروفیسر صاحب گوجرہ میں مذہبی اجتماع تھا جس میں انہوں نے فرمایا… بڑھتا ہوا دماغ اور ترقی انسان کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے، وسائل تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زمین کا ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے جبکہ حیاتیاتی وسائل پورے کرنے کیلئے چار مزید زمینوں کی ضرورت ہے۔ اے آئی سے خود اسکے خالق خوفزدہ ہیں یہ ترقی کی معراج ہے مگر اے آئی میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جو دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا، ابھی ایک بہت بڑی جنگ ہونا باقی ہے جسے اے آئی لیڈ کریگی۔ آج قرآن کی ہر سٹیٹمنٹ سو فیصد درست ثابت ہو چکی ہے، اب اللہ کا انکار آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی بدی کو جانچنے کا شعور بخشا ہے، عقل اللہ اور انسان کے مابین پل کا کام دیتی ہے۔ اے آئی 2030 تک نوجوان جسم پر بوڑھے شخص کا سر لگانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سائنس بتاتی ہے کہ انسانی دماغ 300 سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر بدن نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عنقریب لوگوں پر دھوکے کے بھرپور سال آئیں گے جب بددیانت کو دیانتدار، جھوٹے کو سچا اور بے وقوفوں کی رائے کو عوامی معاملات میں اہمیت حاصل ہو گی، علم صرف دکھلاوے کیلئے رہ جائیگا، دعوئوں کی منڈیاں لگیں گی، چھوٹے لڑکوں کو مذہب پر اتھارٹی مانا جائیگا، دجال کا فتنہ بھی یہی ہو گا کہ آسمان سے بارش برسائیگا اور بارش کے بغیر غلہ اگائے گا، اور کہے گا میں تمہارے باپ یا بھائی کو زندہ کر دوں گا تو مجھے خدا مان لو گے۔ اب اے آئی بھی یہی کرنے جا رہی ہے، ہم نے زمین مال اور اقتدار کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس میں ہمیں مکمل ہار ہو گی۔

جناب قبلہ محمد صادق صاحب ڈی جی کسٹم ویلیو ایشن نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا شعر لکھ کر دیا۔ جس کا مفہوم ہے ’’گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے کہ نہیں؟ حجاز سے پھر وہی نسیم سحر آتی ہے کہ نہیں؟ اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں؟‘‘۔
پروفیسر صاحب کو اللہ زندگی دے لوگوں کے روحانی مسیحا ہیں اور سائنسی امتزاج کے ساتھ کمال درجے کے انسان ہیں اور امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب کے ساتھ اے ا ئی

پڑھیں:

کشمیری حقیقی عید تب منائیں گے جب وہ بھارتی غلامی کا طوق توڑ دیں گے، غلام احمد گلزار

سرینگر سے خصوصی عید پیغام مین حریت رہنما کا کہنا تھا کہ ہمیں اس پر مسرت موقع پر شہداء کے خاندانوں کو نہیں بھولنا چاہیے جن کے عزیزوں نے آزادی کے مقدس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر وائس چیئرمین غلام احمد گلزار نے کہا ہے کہ کشمیری حقیقی عید اس وقت منائیں گے جب وہ بھارتی غلامی کا طوق توڑ کر اپنی مادر وطن کو بھارتی استعمار سے آزاد کرائیں گے۔ ذرائع کے مطابق غلام احمد گلزار نے سرینگر سے خصوصی عید پیغام میں امت مسلمہ بالخصوص کشمیری مسلمانوں کو عید کی دلی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ عید اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اس کی رحمتیں طلب کرنے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کشمیری شہداء کے خاندانوں، بے سہاروں اور یتیموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ آزادی کے جذبے کو تازہ کرنے کا دن ہے۔ ہمیں اس پر مسرت موقع پر شہداء کے خاندانوں کو نہیں بھولنا چاہیے جن کے عزیزوں نے آزادی کے مقدس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کی سنگین صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جان، عزت، وقار، شناخت اور ثقافت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور کشمیر کی موجودہ صورتحال نے ہمارے دکھوں کو بڑھا دیا ہے۔

غلام احمد گلزار نے کہا کہ بھارت نے کشمیریوں کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور اقوام متحدہ، عالمی طاقتیں، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں حتیٰ کہ اسلامی تعاون تنظیم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر کو ماتم کے مرکز اور بیواؤں اور یتیموں کی سرزمین میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 1989ء سے اب تک ایک لاکھ کشمیری شہید، ہزاروں معذور، وحشیانہ تشدد اور پیلٹ دہشت گردی سے نابینا ہو چکے ہیں، سینکڑوں بھارتی جیلوں میں بند ہیں، آٹھ ہزار سے زائد کشمیری لاپتہ اور بارہ ہزار سے زائد خواتین کو قابض افواج نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ وائس حریت چیئرمین نے کہا کہ 5 اگست 2019ء سے مودی کی ہندوتوا حکومت کشمیری مسلمانوں کو بے گھر کرنے اور مقبوضہ علاقے میں غیر ریاستی ہندوؤں کو آباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس نوآبادیاتی اقدام کا مقصد جموں و کشمیر میں ہندوتوا نظریہ اور ثقافت مسلط کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019ء کو خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے کشمیر مسلسل محاصرے میں ہے اور کشمیریوں سے ان کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو ایک کھلی جیل اور ٹارچر سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں کشمیریوں کی تذلیل ایک معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور مذہبی تہواروں جیسے عید، محرم کے جلوسوں پر پابندی اور سری نگر کی جامع مسجد جیسی عظیم الشان مساجد کو سیل کرنا مودی حکومت کی مسلم دشمنی کی واضح مثالیں ہیں۔

غلام احمد گلزار نے شہداء کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنا مقدس لہو دے کر آزادی کی شمع کو روشن کیا اور ہم ان کی قربانیوں اور مشن کے محافظ ہیں۔ عید سادگی اور اسلامی اصولوں کے مطابق منانے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عیدالاضحیٰ یتیموں، بیواؤں اور معاشرے کے غریب طبقے کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا دن ہے۔حریت رہنما نے سیاسی نظربندوں کی ثابت قدمی کو سلام پیش کیا اور کہا کہ وہ کشمیریوں کے اصل ہیرو ہیں اور ان کی عظیم قربانی یقینی طور پر رنگ لائے گی۔ انہوں نے جموں و کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی سازشوں کو ناکام بناتے اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

غلام احمد گلزار نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی ترک کرے اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سہ فریقی مذاکرات شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر ایک ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے اور اس مسئلے کا مستقل حل جنوبی ایشیا میں امن کیلئے ناگزیر ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے اور جدوجہد آزادی کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • ن لیگ والے کہتے ہیں کہ جنگ کا ڈیزائن میاں صاحب نے بیٹھ کر بنایا ہے: پرویز الہیٰ
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
  • وائس چانسلر فاطمہ جناح  کا سر گنگا رام ہسپتال کا دورہ، مریضوں اور عملے کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں
  • تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا پی ٹی آئی ہم سے بات کرے، رانا ثنااللہ
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں: شیخ رشید احمد
  • کشمیری حقیقی عید تب منائیں گے جب وہ بھارتی غلامی کا طوق توڑ دیں گے، غلام احمد گلزار
  • آسٹریلیا کے شہر برسبین میں پاکستانی نوجوانوں کی چاند رات پارٹی میں بزرگوں کی شرکت