صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ کے قسط وار ناکام منصوبے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا ہے اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ تحریر: علی رضائی
2016 سے لیکر اب تک ٹرمپ نے مقبوضہ فلسطین کے لیے منصوبے پیش کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام بھی کیا۔ گزشتہ منصوبوں کی نئے پروجیکٹ یعنی "غزہ سےجبری نقل مکانی" سے ایسی ہی نسبت ہے، یعنی ناکامی۔ پہلے دور حکومت میں "ٹرمپ کا امن منصوبہ" یا "صدی کی ڈیل" ایک بڑامنصوبہ تھا۔ اس کا مقصد غاصب اسرائیل اور فلسطین کے اصل مالک فلسطینی عوام کے درمیان صلح اور امن پر مبنی ماحول تیار کر کے ایک کمزور اور بے اختیار فلسطینی ریاست کا قیام تھا، تاکہ عربوں اور فلسطینیوں سے 80 سال سےقابض اسرائیل کے ناجائز قبضے اوروجود کو قانونی طور پر تسلیم کروایا جا سکے۔
اس مقصد کے حصول کا راستہ صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر آگئےا۔ اس کے بعد "ابرہام پیکٹ" کے تحت ٹرمپ کی طرف سے بالخصوص سعودی عرب اور صیہونیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیش کیا گیا۔ صدی کی ڈیل اور دو ریاستوں کی تشکیل فلسطینی عوام کے لیے خیانت پر مبنی منصوبہ ہے۔ فرض کریں کہ غیر ملکی افواج آپ کے ملک پر قابض ہیں اور 8 دہائیوں کی جنگ اور ہزاروں لوگوں کے قتل کے بعد اب وہ آپ سے اس قبضے کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کو بغیر کسی اختیار کے ایک بہت ہی قلیل سا علاقہ دیا جاتا ہے۔
صیہونی تو ایک معمولی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور پورے فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے عوام کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔لہٰذا تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بعض عرب ممالک کی پیشگی شرط یہ تھی کہ فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اپنےمنصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ٹرمپ نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امارات اور بحرین جیسے ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل بھی ہو گئے۔ لیکن یہ امریکی منصوبہ یہیں پر رک گیا۔ اگلا منصوبہ جو اسرائیل اور امریکہ نے مشترکہ طور پر فلسطینی عوام کے خلاف جاری کیا وہ غزہ میں قتل عام تھا۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج نے تقریباً 50,000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس جنایت اور مجرمانہ آپریشن کے ذریعے نیتن یاہو کا بنیادی ہدف حماس کی مکمل تباہی اور خاتمہ تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، نیتن یاہو نے 20 دسمبر 2023 کو اسرائیلی جنگی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ہم جنگ کو آخر تک جاری رکھیں گے، حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی،جب تک ہم اپنے مقرر کردہ تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے یعنی حماس کو تباہ کرنا، یرغمالیوں کو آزاد کرنا اور غزہ کی جانب سے اسرائیل کو ہرقسم کے خطرے کو ختم کرنا شامل ہے۔
نتن یاہو نے کہا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم رک جائینگے، وہ سچائی سے بہت دور ہے، حماس کے تمام دہشت گرد شروع سے آخر تک مارے جائیں گے۔ بالآخر یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا اور حماس کے مجاہدین غزہ میں ابھی مسلح ہیں اور غزہ ان کے پاس ہے، اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی غزہ سے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں "زبردستی منتقل" کرنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا لیکن اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب ٹرمپ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس منصوبے سے غزہ اور حماس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
حالانکہ مقصد کو نیتن یاہو 50 ہزار لوگوں کے قتل عام سے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ملکیت حاصل کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں، بلاشبہ وائٹ ہاؤس اس منصوبے کے ذریعے حماس کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیل انہیں مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ کا جبری ہجرت کا منصوبہ اتنا ناقابل قبول ہے کہ عرب ممالک بھی اس پر بول پڑے۔ وہی ممالک جنہوں نے ابراہام معاہدے کے منصوبے میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ جبری نقل مکانی کا سنتے ہی سعودی عرب نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
اس منصوبے کو عالمی سطح پر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر اور اردن جو کہ امریکی امداد کے وصول کنندہ ہیں اور بہت سے معاملات میں اپنے موقف اور مطالبات کو بغیر مخالفت کے تسلیم کرلیتے ہیں، انہوں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ یورو نیوز کے مطابق جرمنی نے ٹرمپ کے اس منصوبے کے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غزہ سے فلسطینی شہری آبادی کو بے دخل کرنا نہ صرف ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے، بلکہ اس سے نئے مصائب اور نفرت بھی جنم لے گی، فلسطینی عوام کی شرکت کے بغیر کوئی بھی حل نہیں ہونا چاہیے۔
فرانس نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی آبادی کی جبری منتقلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملہ اور دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹرمپ اور عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے ہیں، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی عوام نیتن یاہو کا منصوبہ کرنے کا نہیں کر ٹرمپ کا ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کے تجارتی ٹیرف سے امریکا نے رواں سال کے 6 ماہ میں 87 ارب ڈالر کمالیے
امریکا نے 2025 کے ابتدائی 6 ماہ میں گزشتہ پورے سال سے زائد تجارتی ٹیرف جمع کرلیا۔
امریکی محکمہ خزانہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری سے جولائی 2025 تک امریکا نے ٹیرف کی مد میں 87 ارب ڈالر سے زائد محصولات حاصل کیے ہیں جو گزشتہ سال 2024 میں حاصل کردہ 79 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہیں۔
یہ غیر معمولی اضافہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد سامنے آیا۔ ٹرمپ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنائی گئی امریکا کی آزاد تجارتی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے مختلف ممالک اور مخصوص مصنوعات پر بھاری ٹیرف نافذ کیے تھے۔
اب تک امریکا نے کئی ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت پرانے نرخوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ٹیرف نافذ ہوں گے۔
امریکا میں 2022 میں ٹیرف سے حاصل ہونے والی آمدنی 98 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر تھی تاہم موجودہ سال اس سطح کے قریب پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق صرف جون 2025 میں امریکا کو تجارتی ٹیرف سے 26.6 ارب ڈالر کی رقم حاصل ہوئی جو جنوری کے مقابلے میں تقریباً 4 گنا زیادہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کے عائد کردہ وسیع ٹیرف نے امریکا کو ’دوبارہ عظیم اور امیر‘ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں یکم اگست کی ڈیڈ لائن سے پہلے واشنگٹن سے معاہدے کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ۔