پاکستان امریکا اور چین کے درمیان فاصلے کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
MUNICH:
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی تناؤ کے درمیان پاکستان امریکا اور چین کے مابین فاصلے کم کرنے میں کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران ڈوئچے ویلے کو انٹر ویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کےآغاز میں پاکستان کے تاریخی کردار کو اجاگر کیا اور کہا کہ اگر آپ ہمیں کسی کیمپ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ہم خود کو ایک مصالحت کار اور ثالث کے طور پر دیکھنا چاہیں گے۔ انہوں نے پاکستان تقسیم کو وسعت دینے کے بجائے خلیج کو پاٹنے کا خواہاں ہے۔
بلاول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ’ ڈیل میکر ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی لیڈرشپ میں پاکستان کلیدی علاقائی چیلنجز سے نبردآزما ہوسکتا ہے۔
انہوں نےاس بات پر بھی زور دیا کہ علاقائی حریف ہونے کے باوجود پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کے لیے چین کے حریف کے طورپر امریکی حمایت ہتھیاروں کی دوڑ کا سبب بن سکتی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے چین کے ساتھ پاکستان کے مستحکم تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تعلقات قائم رکھے۔
گذشتہ برس پاکستانی دفتر خارجہ نے ’ ایک فریق کا فائدہ دوسرے کا نقصان ‘ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا، چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
سیکیورٹی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے پاکستان کے موجودہ چیلنجز کا سبب افغانستان سے امریکی انخلا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان اورد اعش جیسے گروہ طاقت ور ہوئے۔
بلاول بھٹو نے جارحیت پسندی کے خلاف ماضی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے سیاسی اتفاق رائے زور دیا۔
پاکستان نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں کلیدی مصالحت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکا اور چین کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔
1971 میں پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان خفیہ رابطہ کاری کو ممکن بنایا۔ بعدازاں صدر یحییٰ خان نے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور چینی حکمران چون این لائی کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کیا۔
پاکستان نے جولائی 1971 میں امریکی قومی سلامی کے مشیر ہنری کیسنجر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کا اہتمام کیا۔ سرکاری طور پر ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر تھے مگر بیماری کے بہانے وہ بڑی خاموشی سے اسلام آباد سے چین پرواز کرگئے تھے۔
ہنری کسنجر کے دورے سے امریکی صدر نکسن کا 1972 کا انتہائی اہم دورہ چین ممکن ہوپایا، جس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات کی ابتدا ہوئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے بلاول بھٹو اور چین کے کے درمیان کرتے ہوئے کے ساتھ
پڑھیں:
افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک
پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر صحافی اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی افغانستان اور پاکستان کے لیے نیوز ڈائریکٹر کیتھی گینن نے کہا ہے کہ افغان سر زمین پر عسکریت پسند گروپوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انسٹیٹوٹ آف ریجنل اسٹیڈیز (آئی آر ایس) کے زیر انتظام اسلام آباد میں منعقدہ ’جیوپولیٹیکل شفٹس اینڈ سیکیورٹی چینلجز‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ شاید افغانستان یہ نہ چاہتا ہو کہ عسکریت پسند گروپس افغانستان کی سرزمین استعمال کریں، لیکن اِس سب کے باوجود وہ (عسکریت پسند گروہ) وہاں بدستور موجود ہیں۔
واضح رہے کہ وہ 2014 میں افغانستان میں رپورٹنگ کرتے ہوئے زخمی ہوگئیں تھیں۔ پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ کیتھی گینن نے کہا کہ پاکستان کو اپنے علاقائی مقاصد کے حصول میں افغان حکومت کو ایک برابر اور شراکت دار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد کو اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کے حل کے لیے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایک مضبوط اور طویل المدتی حکمت علمی کے ساتھ کارروائیاں کرنا ہوں گی۔
کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ چین کے افغانستان میں معدنی وسائل پر اثر و رسوخ کی وجہ سے افغانستان اب بھی امریکا کی پالیسی سازوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف دُرانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جو ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ آصف درانی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہہ ملکی مذاکرات میں دہشت گردی ختم کرنے پراتفاق ہوا۔
پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی آر ایس کے صدر جوہر سلیم نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود، علاقائی جغرافیائی سیاست اور باہمی مفادات نے دونوں ممالک کو مختلف سطحوں پر منسلک اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مجبور کیا ہے۔ آئی آر ایس میں افغانستان پروگرام کے سربراہ آرش خان نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن افغانستان عبوری حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف حالیہ دنوں میں ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔