گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار سے ختم کروڑ روپے حاصل ہوئے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
گلگت بلتستان میں رواں سال مارخور کے شکار کا سیزن مکمل ہوگیا۔ اس سال مارخور کے شکار کے لیے 4 لائسنس جاری کیے گئے، جن میں سے 3 امریکی اور ایک ہسپانوی شکاری نے ٹرافی ہنٹنگ کی کامیاب بولی لگائی اور مارخور شکار کیے
یہ بھی پڑھیں:مارخور کا غیر قانونی شکار کرنے پر 3 افراد گرفتار
4 کروڑ 47 لاکھ 20 ہزار روپےآخری شکار امریکی شکاری ڈیرون جیمز مل مین نے حراموش میں کیا، جہاں انہوں نے 42 انچ لمبے سینگوں والے استور مارخور کا شکار 160000 امریکی ڈالر (تقریباً 4 کروڑ 47 لاکھ 20 ہزار روپے) میں کیا۔
اسی طرح امریکی شکاری جسٹن ریان فلاٹوک نے بونجی کے علاقے میں 42 انچ سینگوں والے استور مارخور کا شکار 150500 امریکی ڈالر (تقریباً 4 کروڑ 18 لاکھ 23 ہزار 950 روپے) میں کیا۔
4 کروڑ 17 لاکھ 15 ہزار 590 روپےایک اور امریکی شکاری بریان کینسل ہیریان نے 50 انچ لمبے سینگوں والے استور مارخور کا شکار 150500 امریکی ڈالر (تقریباً 4 کروڑ 17 لاکھ 15 ہزار 590 روپے) میں کیا، جو کہ اس سیزن میں شکار کیے جانے والے مارخور میں سب سے بڑا تھا۔
اس سال واحد ہسپانوی شکاری نے دنیور کنزرویشن ایریا میں 44 انچ لمبے سینگوں والے استور مارخور کا شکار کیا۔جو سیزن کا پہلا شکار تھا۔ اس شکار کی فیس 150500 امریکی ڈالر (تقریباً 4 کروڑ 18 لاکھ 39 ہزار روپے) ادا کی گئی۔
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق شکار سے حاصل ہونے والی 80 فیصد رقم مقامی کمیونٹی کو دی جاتی ہے، تاکہ وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبوں میں استعمال کریں، جبکہ 20 فیصد سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استور مارخور گلگت بلتستان ہنٹنگ سیزن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استور مارخور گلگت بلتستان امریکی ڈالر کروڑ 18 لاکھ ہزار روپے شکار کی میں کیا
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔