شام:بشار الاسد کے کٹھ پتلی مفتی اعظم کے گھر پر مشتعل افراد کا دھاوا
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں سابق صدر بشار الاسد کے دور میں ملک کے مفتی اعظم کے منصب پر فائز احمد حسون کئی ماہ بعد پہلی بار حلب میں منظر عام پر آ گیا۔ اس موقع پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد حسون کے گھر کے سامنے جمع ہو گئی اور احتجاج کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سابق مفتی اعظم کو گرفتار کر کے اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں سابق مفتی اعظم کو شام کے شمالی شہر حلب میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں ایک احتجاجی شہری سے بات کر رہا تھا۔سابق مفتی اعظم نے ایک شہری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا نام ڈاکٹر احمد حسون ہے اور وہ سابق صدر بشار الاسد کے دور میں 3 بار گرفتار ہوا۔ سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل ہونے کے بعد مشتعل افراد نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا اور گھر میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی۔ واضح رہے کہ 1949 ء میں حلب میں پیدا ہونے والے احمد بدر الدین حسون نے 2005 ء سے ملک کے مفتی اعظم کے عہدے پر کام کیا۔ وہ 2021 ء میں اس منصب کے منسوخ کیے جانے تک عہدے پر فائز رہا۔احمد حسون نے عربی ادب سند حاصل کی اور جامعہ الازہر سے شافعی فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ماضی میں بارہا بشار الاسد کے ساتھ نظر آیا اور سابق صدر کی پالیسیوں کا دفاع بھی کرتا رہا۔ احمد حسون نے خانہ جنگی کے دوران میں بشار کی فوج کی جانب سے حلب پر بم باری کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بشار الاسد کے مفتی اعظم
پڑھیں:
عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینیٹر شمیم آفریدی
سابق سینیٹر شمیم آفریدی نے کوہاٹ پریس کلب میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوہاٹ پولیس نے ابھی تک اس حوالے سے میرے ساتھ رابطہ نہیں کیا اور نہ ایف آئی آر درج کی۔ اسلام ٹائمز۔ سابق سینیٹر شمیم آفریدی نے دعویٰ کیا ہے کہ میرا بیٹا عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا بلکہ اسے سازش کے تحت بم دھماکے میں قتل کیا گیا۔ سابق سینیٹر شمیم آفریدی نے کوہاٹ پریس کلب میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوہاٹ پولیس نے ابھی تک اس حوالے سے میرے ساتھ رابطہ نہیں کیا اور نہ ایف آئی آر درج کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سیاسی آدمی ہوں اس سے پہلے مجھ پر اور میرے بیٹوں پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن ان حملوں میں آج تک کوئی گرفتار نہیں ہوا نہ ان کی شناخت ہوئی۔
شمیم آفریدی نے کہا کہ واقعے والے دن 4 بجے میرے حجرے سے سیکیورٹی ہٹائی گئی جبکہ دو گھنٹے بعد حجرے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے عباس آفریدی کے واقعے کی آزادانہ انکوائری کی جائے، میرے بچے تعلیم یافتہ پڑھے لکھے ہیں، انہیں مختلف واقعات میں پھنسا کر مجرم بنایا جا رہا ہے۔ شمیم آفریدی نے کہا کہ میرے بیٹے امجد آفریدی کی عدالت پیشی کے موقع پر پولیس اہلکار سے فائرنگ ہوئی جو کہ تشویش ناک ہے۔