پیپلز پارٹی کے ار کان اسمبلی سندھ میں قائم ڈاکو راج کے مسئلے پر خاموش
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ /واجدحسین انصاری) سندھ حکومت کی ناقص حکمت عملی، سیاسی پشت پناہی اور اربوں روپے خرچ کیے جانے کے باوجود اندرون سندھ کچے کے علاقوں میں بدستور ڈاکو راج قائم ہے۔پیپلز پارٹی کے منتخب ایم پی ایز اور ایم این ایز نے سندھ میں بدامنی کے مسئلے پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور کبھی انہوں نے اس مسئلے پر اسمبلی سمیت کسی فورم پر کوئی آواز بلند نہیں کی۔حکومت کی جانب سے متعدد بار ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے اعلان کے باوجود صوبے کے مختلف اضلاع سے سیکڑوں لوگوں کو اغواکرلیا جاتا ہے۔کچے کے ڈاکوؤں کی مبینہ طور پر سیاسی سرپرستی کی جارہی ہے جب کہ آپریشن کے نام پر ملنے والی رقم کی بندر بانٹ کرلی جاتی ہے۔سندھ کے 5 اضلاع میں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جب کہ یہ پولیس کے لیے نوگو ایریاز بن گئے ہیں۔شمالی سندھ کے ان پانچ اضلاع کی آبادی لگ بھگ 72 لاکھ 6 ہزار 890 ہے جہاں ڈاکو بغیر کسی خوف کے جہاں چاہیں کارروائی کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت جیکب آباد، شکارپور اور کشمور میں امن و امان کی صورتِ حا ل انتہائی خراب ہے۔ ڈاکو جہاں موجود ہیں وہاں تک پولیس نہیں پہنچ سکتی۔ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے جب کہ ماضی میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشنز کامیاب نہیں ہوسکے۔ اغوا ہونے والے شہری ڈاکوں کو پیسے دینے کے بعد بازیاب ہوتے ہیں۔ذرئع نے مزید بتایا کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے 6 ارب روپے کے خصوصی فنڈز بھی جاری کیے تھے۔ جن میں آپریشن پر ہونے والے اخراجات کے ساتھ ضلع گھوٹکی میں 62 پولیس کی چوکیاں بھی تعمیر کی گئی تھیں لیکن وہ چوکیاں عملی طور پر اس لiے بھی غیر فعال ہیں کہ بیشتر پولیس اہلکار چوکیوں میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس اہلکاروں کے مقابلے میں ڈاکوؤں کے پاس انتہائی جدید قسم کا اسلحہ ہے اور وہ جب چوکیوں پر حملے کرتے ہیں تو ایک دو درجن کی صورت میں نہیں بلکہ پچاس ساٹھ ڈاکو موٹر سائیکلوں پر آکر حملہ کرتے ہیں۔ اس لیے بیشتر پولیس اہلکار ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان نے نمائندہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ امن و امان کی بحالی کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کی دعویدار پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ، امن و امان کے قیام ،بدامنی،اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو اسٹریٹ کریمنلز اور ڈمپر مافیا جب کہ اندرون سندھ کے لوگوں کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔ فاروق فرحان نے کہا کہ 3 سال گزرنے کے باوجود امن و امان سے متعلق سیف سٹی پروجیکٹ مکمل نہیں ہوسکا ، اسے جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جب تک قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا اس وقت تک امن وامان کا قیام ممکن نہیں۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شبیر قریشی نے امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ بالخصوص شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، دہشت گردی کے واقعات، اسٹریٹ کرائم اور ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا جارہاہے، ڈمپرز اور ٹینکرز شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور شہریوں کو مارر ہے ہیں، ان کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تھانوں میں من پسند ایس ایچ اوز کی تعیناتی اور میرٹ کا قتل ہوتا رہے گا امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام نظر آتی ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر افتخار عالم نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے تمام تر دعوے کھوکھلے ہیںجب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کھوکھلے دعووں اور وعدوں سے امن و امان سمیت دیگر عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے، اس کے لیے عملی اقدامات اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 17 برس سے سندھ میں برسراقتدار پیپلزپارٹی کی حکومت صوبے میں ڈاکوؤں پر قابونہیں پاسکی، آج بھی اغوا برائے تاوان اور تاجروں کے اغوا کے واقعات ہورہے ہیں لیکن حکومت سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: امن و امان کی میں ڈاکوو ں ڈاکوو ں کے نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے. پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے.اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے. اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے. نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے. گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی. پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں. تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے. بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے. لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے. مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔انہوں نے کہا وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی. جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے. بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے. ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا. ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا. میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں. ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔