Jang News:
2025-04-25@10:29:21 GMT

کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹو

ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔

دورانِ سماعت بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کرسکتی، آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سیکشن ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا؟

موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہو سکتا یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جاسکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگرچہ مارشل لاء میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں آئین کا آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف آئین کا آرٹیکل 175 کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، فوج آئین کا آرٹیکل 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا (3) 8 کے مقصد کے لیے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹیو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹیو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ وقفہ کے بعد عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمے میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں، یہ کس نوعیت کا کیس ہے جس میں جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ملزم کے 3 ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کر رہا، جسٹس ہاشم نے کہا کہ زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کر رہا ؟۔ بعد ازاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن کا ٹورنٹو میں انتقال

متعلقہ مضامین

  • کے پی: بلدیاتی نمائندوں کو 3 سال توسیع دینے کی درخواست، وکیل کی استدعا پر سماعت ملتوی
  • سندھ: سائٹ لمیٹڈ کے ایم ڈی کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں
  • عمران خان کا جسمانی ریمانڈ دینے کی پنجاب حکومت کی استدعا مسترد
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ