Express News:
2025-04-25@09:54:31 GMT

گندم کی خراب فصل سے خوراک کی قلت کا خدشہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

ساری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے،نئے نئے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔دنیا کے امیر ترین اور صنعتی پیداوار میں سب سے آگے ممالک کے کارخانوں کی چمنیاں فضا کو آلودہ کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جا رہی ہیں۔ کاربن کے بے تحاشہ اخراجCarbon Emission نے دھرتی کا درجۂ حرارت بڑھا دیا ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والے ممالک ہی متاثر نہیں ہو رہے اس سے وہ ملک بھی لپیٹ میں آرہے ہیں جن کا کاربن اخراج میں حصہ بہت کم ہے۔پاکستان پچھلے چند سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ہے۔ہمارا ملک چونکہ ایک چھوٹی اکانومی ہے۔

یہ معاشی حوالے سے ایک غریب ملک ہے اس لیے اس کے پاس ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ریسورسز بہت کم ہیں۔پاکستان پچھلے مسلسل تین سالوں سے سیلابوں کی زد میں رہا ہے۔خیبر پختون خواہ،جنوبی پنجاب،سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقے سیلابوں سے تباہ برباد ہوئے ہیں لیکن تباہ حال لوگوں کی آبادکاری کے لیے قومی اور صوبائی حکوموں کے پاس فنڈز کی کمی بھی ہے اور کرپشن کی وجہ سے فنڈز کا صحیح استعمال بھی نہیں ہوپاتا۔بین الاقوامی برادری نے فنڈز مہیا کرنے کے بے شمار وعدے کیے ۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے خود پاکستان آکر حالات کا جائزہ لیا اور وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی کو دیکھ کر پاکستان کو امداد دینے کی اپیل کی لیکن زیادہ تر کیے گئے وعدے وعدے ہی رہے،پورے نہیں ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب ایک حقیقت ہیں۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن نظر نہیں آتا کہ ہماری حکومتوں کی یہ ترجیح ہے۔

امسال پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ پنجاب جو پورے ملک کے لیے خوراک پیدا کرنے والا پاور ہاؤس ہے اور شمالی علاقہ جات میں بارشیں یا تو ہوئی ہی نہیں یا پھر بس ایک دو چھوٹی چھوٹی بارشیں ہوئی ہیں۔پنجاب کے بارانی علاقوں میں تو اکتوبر کے پہلے ہفتے کے بعد کوئی بارش سرے سے ہوئی ہی نہیں۔اس سے پہلے یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ ہر چند سال کے بعد ایک سال ایسا آ جاتا تھا جب وسط اکتوبر سے دسمبر تک موسم خشک رہتا تھا لیکن سردیوں میں بارشیں ہوتی تھیں اوریہ کئی کئی دن تک ہلکی ہلکی لگی رہتی تھیں۔

البتہ یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ پورا اکتوبر،نومبر،دسمبر،جنوری اور فروری بارشوں سے محروم گزر جائے۔قیامِ پاکستان کے بعد یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ ستمبر کے آخر سے اب تک یعنی فروری کے آخری دنوں تک موسم بالکل خشک ہو۔مویشیوں کو پلانے والے پانی کے جوہڑ سوکھ چکے ہیں۔فصلوں کو شدید نقصان ہوا ہے۔اس صورتحال میں خوراک کی شدید قلت ہو سکتی اور جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔

لمبے عرصے تک بارشوں کے نہ ہونے سے فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔جن لوگوں نے وقت پر فصلیں کاشت کر دی تھیں،ان کی فصلیں تو اُگ آئی تھیں لیکن بارانِ رحمت نہ ہونے کے سبب یہ فصلیں اوپر نہیں اٹھ سکیں اور کوتاہ قد رہ گئی ہیں۔کسان اور چھوٹے زمیندار اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔  اگر یہی حال رہا تو فصلوں سے آمدن تو کیا ہونی ہے،الٹا سال بھر کی خوراک بھی حاصل ہونی مشکل نظر آتی ہے۔ محمد حکیم صاحب ایک کسان ہیں۔

ان کا تعلق تحصیل گوجر خان سے ہے۔ حکیم صاحب نے اپنی قابلِ کاشت زمین کے دس ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔پچھلے چار مہینوں کے بالکل خشک موسم کے سبب حکیم صاحب کی 50فیصد فصل تباہ ہو چکی ہے اور خطرہ ہے کہ آنے والے ہفتے دو ہفتوں میں بارانِ رحمت نہ ہوئی تو اس کی بچی کھچی فصل بھی بہت بری طرح متاثر ہو گی۔48سالہ جناب حکیم نے کہا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں ایسی خشک سالی نہیں دیکھی۔یہ بھی پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ گندم کی فصل سبز سے پیلی ہو گئی ہے اور آسمان سے بارش کا نزول نہیں ہوا۔

اب گندم کی فصل خشک ہونے کو ہے لیکن گندم کا پودا ایک فٹ، ڈیڑھ فٹ سے اوپر نہیں قد کر سکا۔گندم کا خوشہ بھی چھوٹا رہ گیا ہے اور اس میں دانہ بھی بہت کمزور ہے۔خدا خیر کرے جانوروں کے لیے بھوسہ بھی بہت کم ہوگا جس سے جانور خوراک کی کمی کی وجہ سے مر سکتے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ کم ہو سکتا ہے۔ کسانوں اور کاشتکاروں کو کسی نے آنے والے خطرات سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی مصیبت کی اس گھڑی کے لیے تیار کیا۔

تحصیل چکوال کے ایک اور کاشتکار جناب رشید حسین نے بھی ایسی ہی بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی زمین کے 15ایکڑ گندم کاشت کے لیے مخصوص کیے لیکن فصل پتلی اور اس کا قد قدرے چھوٹا رہ گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بنجر زمین کے ایک زیریں حصے میں کھدائی کروا کے ایک چھوٹا سا ڈیم تعمیر کر لیا ہے جہاں سے بقدرے ضرورت فصل کو لگانے کے لیے پانی مل جاتا ہے۔

اس سال چونکہ بہت خشک سالی ہے اس لیے دوسرے کاشتکاروں کی نسبت ڈیم سے پانی مل جانے کی وجہ سے ان کی فصل قدرے بہتر ہے،لیکن بارش کا اپنا ہی اثر ہوتا ہے۔بارشیں اگر وقت پر ہو جائیں تو فصلوں پر نکھار آ جاتا ہے،گندم کے پودے کا قد بڑا ہوتا ہے اور خوشے میں دانے بڑے اور زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔اس کے مطابق حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ کاشتکاروں کو فنڈ دے کر اور فنی مہارت مہیا کر کے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنوائے تا کہ بارانی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے سے فصلیں تباہ نہ ہوں اور خشک سالی سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔تلہ گنگ سے ملک خادم نواب نے کہا کہ یہ ایک غیر متوقع لمبی خشک سالی ہے۔ایسی خشک سالی پہلے نہیں دیکھی۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستانیوں کو اﷲ سے توبہ کرنی چاہیے اور مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کر کے بارانِ رحمت کی دعا کرنی چاہیے۔

پاکستان گندم کے قابلِ کاشت رقبے کے لحاظ سے دنیا میں 8ویں نمبر پر ہے لیکن گندم کی فی ایکٹر پیداوار کے لحاظ سے52 ویں نمبر پر آتا ہے جو بہت افسوس ناک ہے۔1999سے لے کر2011تک ہماری فی ایکڑ پیداوار کافی بڑھی لیکن اس کے بعد کم ہونی شروع ہو گئی۔

ہمارا زرعی شعبہ GDPکا تقریباً23 فیصد ہے جب کہ 39فیصد روزگار اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ہم کل24ملین ٹن گندم اگاتے ہیں اور ہماری سالانہ کھپت32ملین ٹن ہے، اسی لیے ہمیں ہر سال گندم در آمد کرنی پڑتی ہے۔پچھلے سال کسانوں کو گندم کی قیمت بہت کم ملی اس لیے موجودہ سیزن میں قدرے کم رقبے پر گندم کاشت کی گئی۔بارشوں کے نہ ہونے سے صورتحال گمبھیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ہر طرف دھول دھپا ہے ۔آنے والے دنوں میں گندم کی شدید کمی اور آٹے کی اونچی قیمتوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔کیا ہم اچھی منصوبہ بندی سے عوام کو آنے والی اس مشکل سے بچا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی گندم کا نہ ہونے نہیں ہو ہے لیکن گندم کی نے والے نے اپنی کی فصل کے بعد کہا کہ ہے اور بہت کم کے لیے

پڑھیں:

گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل

ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوجی مودی کو سر عام کوسنے لگے، ویڈیو سامنے آگئی
  • گوشت کی متبادل خوراک، پروٹین کے خزانے اور ایک علیحدہ بونس بھی
  • بھارت پاکستان میں حالات خراب کرے گا، ہمیں اب چوکنا رہنا پڑے گا، عبدالباسط
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
  • نواز شریف اور شہباز شریف ماحول خراب کرنے والوں کو سمجھائیں، شرجیل میمن
  • غزہ میں ایک ماہ سے کوئی امدادی ٹرک داخل نہیں ہوا، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • متنازع نہروں کے خلاف دھرنا، ہر گھنٹے میں صورت حال خراب ہورہی ہے، کراچی چیمبر
  • پنجاب میں گندم کے بحران کا خدشہ ہے: ملک احمد خان بھچر