Express News:
2025-09-18@14:24:46 GMT

شورش کاشمیری

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

ہمارے خطے میں کیسی کیسی قدآور شخصیات ایستادہ ہوئی ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنا زمانہ بدل ڈالا بلکہ اپنے افکار اور شخصیت سے آنے والے وقت پر بھی بھرپور اثرانداز ہوئے۔ انھیں میں سے ایک دیوقامت شخص شورش کاشمیری بھی تھا۔ نڈر صحافی، کمال مقرر، مؤثر شاعر اور اپنے اندر ایک جہان لے کر زندہ رہنے والا زرخیز شخص۔ آج کے بونوں کے دور میں جب شورش کے کام پر نظر پڑتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ خدا، تو نے اب ہمیں اتنا بنجر کیونکر کر ڈالا ہے؟ شاید ہماری اجتماعی سزا ہے کہ کسی بھی شعبے میں بڑے آدمی پیدا ہونے موقوف ہو چکے ہیں۔ ہمارا ملک بالخصوص ایک ذہنی اور فکری لحاظ سے تپتا ہوا ریگستان بن چکا ہے۔

جہاں کوئی قد آور درخت نما شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بلکہ اب تو سوچنا تک جرم بنا دیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، ہمارے حکمران طبقہ کا رویہ، برطانوی سامراج سے بھی بدتر رہا ہے۔ مگر ماضی میں انگریزوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے سیاست دان بھی تھے، شاعر بھی تھے، صحافی بھی موجود تھے۔ بلکہ قربانیوں کا ایک سلسلہ تھا جو ہماری آزادی کا موجب بنا۔ اس سلسلہ کی ایک بڑی مضبوط کڑی جناب شورش کاشمیری بھی تھے۔

شورش کے متعلق مولانا ظفر علی خان فرماتے ہیں:

کیا حکومت نے چند دن کے لیے جو زنداں میں بند تجھ کو

تو شکر حق کر کہ راہِ حق میں پہنچ رہا ہے گزند تجھ کو

رئیس امروہی جیسا بلند پایہ شخص، شورش صاحب کی بابت لکھتا ہے:

بڑے آدمیوں میں بہت سی خوبیاں ایک ہی وقت میں جمع ہو جائیں تو انھیں مجموعہ صفات یا جامع الصفات کہا جاتا ہے، یہی خوبیاں جب کسی دوسرے آدمی میں آ جائیں اور اس کی شخصیت ذرا اختلافی ہو تو وہ مجموعہ اضداد کہلاتا ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ شورش کاشمیری کے بارے میں اس زمانے کے بزرجمہروں کی رائے کیا ہے لیکن ہم لوگ جو ان کے قریب رہے ہیں یا جنھیں انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، اس رائے کے حامل ہیں کہ خاص اختلافی شخصیت ہونے کے باوجود وہ جامع صفات اور مجموعہ اضداد ہیں۔

کسی اور ملک میں ہوتے یا اسی ملک کے بہترین دور میں ہوتے اور انھیں دوستوں کا ایک بے حسد حلقہ مل جاتا تو لازماً اس ملک میں ان کا طوطی بولتا، معاصرین انھیں آنکھوں پر بٹھاتے، دوستوں میں ڈنکا بجتا، دشمن بظاہر قدح بباطن مدح کرتے لیکن قدرت نے انھیں اس ملک اور زمانے میں پیدا کیا جس ملک میں دشمن کم ظرف اور دوست بے حوصلہ ہیں۔ کسی چیز کی بہتات ہے تو وہ حاسدوں کا گروہ ہے، علم کی کمی، ذوق کی محرومی، جہد کی نامرادی، ایثار کا فقدان، استقامت کی جانکنی اور رفاقت کی بے بصری نے اپاہجوں کی ایک جماعت پیدا کر دی ہے، جو اپنی محرومیوں کا انتقام دوسروں کی کامیابیوں سے لیتی اور اپنی خاکستر ہی میں سلگتی رہتی ہے۔

آگے لکھتے ہیں کہ وہ صحافت کے شہسوار ہیں،  سید عبداللہ کے الفاظ میں مولانا ابوالکلام آزاد، اور مولانا ظفر علی خاں کے وارث اور تنہا وارث، بے شک ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا تبحرعلمی نہیں، ابوالکلام خدا کی اس سرزمین پر مشہور محاورے کے مطابق قدرت کا عطیہ تھے، ان کے چراغ سے کئی شمعیں روشن ہوئیں۔ لیکن جہاں تک مولانا کی تحریر کے بانکپن کا تعلق ہے، وہ شورش کاشمیری میں اسی شکوہ کے ساتھ موجود ہے۔

وہ الفاظ کو عربی آیات کے سنگھار سے شہ بالا نہیں بناتے، بلکہ اردو کی دلفریبی سے دولہا بناتے ہیں۔ ان کے فقرے برجستہ اور پیرے شگفتہ ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر وتقریر پر مولانا کا بے پناہ اثر ہے، لیکن ان کا یہ اثر بعض پہلوؤں سے انفرادیت رکھتا ہے۔ وہ مولانا کو اپنا پیر ومرشد مانتے اور ان کی ذات سے والہانہ عشق رکھتے ہیں۔ انھیں مولانا اپنے دور کے سب سے بڑے آدمی نظر آتے ہیں لیکن یہ کہنا غلط ہو گا۔ جیسا کہ اس خیال کو شہرت ہو گئی ہے کہ وہ ادب وخطابت میں مولانا کا عکس ہیں، وہ مولانا کی طرح خطاب وصحافت میں رجز خوانی نہیں کرتے۔ وہ لڑائی باندھ کے چومکھی لڑتے ہیں۔

ان کی شاعری ہو یا نثر، قلم کا جوہر اس وقت کھلتا ہے جب وہ عماموں کے پیچ کھولتے ہیں اور قباؤں کے ٹانکے ادھیڑتے ہیں۔ وہ ایک بانکا پھکیت ہیں جنھیں بنوٹ لڑانے کا فن آتا ہے۔ اور ان کا بنوٹ ان کا قلم ہے۔ ان کے قلم اور زبان میں عفو ودرگزر کا مادہ ہی ہیں، وہ تھوتھلا پاتے ان کے لیے لینا گویا ان کا فرض ہو جاتا ہے… پناہ بخدا… جو سامنے آیا چاروں شانے چت ہو گیا، جس نے سر اٹھایا، انا للہ ہو گیا۔ ان کے حریف اس طرح کانپتے ہیں جس طرح اندھیری رات کے سناٹے میں گنہگاروں کے دل کانپا کرتے ہیں۔

شورش کاشمیری کے ایک انٹرویو سے چند اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ وہ کتنا بلند پایہ انسان تھا:

ا… آپ کی تعلیم؟

ش- میری تعلیم مدرسہ کی حد تک میٹرک ہے، بہت چاہا کالج میں داخلہ لوں لیکن گھریلو حالات ایکاایکی اتنے خراب ہو گئے کہ معاشی درماندگی نے بہت سی آرزوؤں کی طرح اس آرزو کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ جتنا پڑھا، بہت کم لوگوں نے پڑھا ہو گا۔ میں اپنی جماعت میں سب سے ذہین طالب علم تھا، اردو فارسی کے ذوق کی پختگی وہاں سے لے کر آیا۔

انگریزی میٹرک تک پڑھی۔ پختہ جیل میں کیا۔ گو مجھے انگریزی میں بے لکائی بولنے کا محاورہ نہیں۔ لیکن انگریزی کے مزاج سے کماحقہ آشنا ہوں۔ کسی وقت کے بغیر انگریزی میں تاریخ، سیاست، سوانح عمری، سفرنامے اور تنقیدی مضامین پڑھ لیتا ہوں۔ قدرت نے رواں دواں ترجمے کی صلاحیت بھی دی ہے، میرے مطالعہ کا ایک ثلث انگریزی کتابوں سے ہے۔

ا… اس وقت عالم اسلام اور خود نفس اسلام کے مسائل کیا ہیں؟

ش… مسائل تو بہت سے ہیں، عالم اسلام کا فوری مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان ریاستوں کو ان کے خودغرض حکمرانوں سے نجات ملے۔ ان ریاستوں میں صحیح خطوط پر ایک اسلامی معاشرہ استوار ہو، اس غرض کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہے، موجودہ نسل ختم ہو گی تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو گا۔ کیونکہ موجودہ نسل اسلام کا اقرار نہیں اظہار کرتی ہے، اس کا وجود اس کی نفی کرتا ہے۔ نفس اسلام یعنی اسلام کا بول بالا صرف اسی صورت میں ہو گا کہ موجودہ تہذیب وسیاست کی مادی قدروں کو کچل دیا جائے۔

خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کی احیاء استحصال کی بدترین شکل یعنی جاگیرداری نظام کی خونخواری کا قیام تھا، یہ نظام مدتوں چلتا رہا۔ جس سے اسلام کو تہذیبی اور تمدنی طور پر ضرور وسعت وتنوع حاصل ہوئے۔ لیکن روح اسلام تدریجاً مفقود ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ اصل اسلام کی جگہ ان فتنوں نے لے لی جو اسلام کے نام پر حکمرانوں کی جماعت نے برپا کیے… آخر یہ نظام یورپ کے صنعتی انقلاب کے ہاتھوں مفتوح ہوا تو بالواسطہ اور بلاواسطہ غلامی آ گئی۔

ا… کیا آپ اس وقت پاکستانی ادب میں خلا محسوس نہیں کرتے، اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے شاعروں، ادیبوں، افسانہ نویسوں اور قلمکاروں نے معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے، آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا، مصلحت کار ہو گئے ہیں؟ ان کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں، ان کے قلم مہربہ لب ہیں یا انھوں نے قصر حکومت میں اپنی بولی چکا لی ہے؟

ش… یہ ایک زبردست حادثہ اور ایک عظیم سانحہ ہے کہ پاکستان کے ان نازک ترین ایام میں قلم کاروں کی جماعت ادب سے لے کر صحافت تک اور تاریخ سے لے کر دین تک (دوچار دیوانوں سے قطع نظر) سپرانداز ہو گئی ہے بالخصوص ادباء شعراء کی وہ جماعت جس نے کبھی ترقی پسند مصنّفین کا زناری ہونا پسند کیا تھا اور جو اپنے سوا ہر ادیب وشاعر کو رجعت پسند یا مفاہمت پسند گردانتے تھے وہ اس طرح چپ سادھ کے بیٹھے ہیں گویا ان کے ضمیر کو خلش ہی نہیں ہوتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شورش کاشمیری ہیں کہ

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • فضل الرحمان کا قطر کے سفارتخانے کا دورہ، امت مسلمہ کے درمیان دفاعی معاہدے کی ضرورت پر زور
  • اب اسلام آباد سے صرف 20 منٹ میں راولپنڈی پہنچنا ممکن، لیکن کیسے؟
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • رہنماء کی گرفتاری قابل مذمت، کسی دباؤ میں نہیں آئینگے، جے یو آئی کوئٹہ