Jasarat News:
2025-04-25@02:12:04 GMT

سندھ میں جامعات کا نظام دو نیم

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

سندھ میں جامعات کا نظام دو نیم

صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں گورنر سندھ کی جانب سے اعتراض شدہ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2025ء جو وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے پیش کیا، اپوزیشن کے بھرپور احتجاج کے باوجود پاس کر ڈالا۔ اس موقع پر شرجیل انعام میمن نے اپنے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج کیا اُن میں سے کسی نے بل کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ آئندہ ہر قابل و اہل شخص یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کے تحت پہلے مرحلے میں چانسلر جو گورنر ہوا کرتا تھا یہ گراں قدر عہدہ وزیراعلیٰ کو دیا اور اب رہی سہی کسر سب سے اعلیٰ درس گاہ کی زمام کو صلائے عام کر ڈالا۔ اس ایکٹ کے تحت پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے نظام کو دو نیم کرکے انتظامی اور تعلیمی شعبوں میں بانٹ کر کڑوا بنادیا گیا ہے۔ انتظامی سربراہ وائس چانسلر، فنانس ڈائریکٹر وغیرہ کا تقرر بیوروکریسی سے بھی ہوسکے گا۔ حاضر سروس اور ریٹائر بیوروکریٹ دونوں ہی حقدار ہوسکتے ہیں۔ درس و تدریس پروفیسر صاحبان کریں گے جو کر ہی رہے ہیں اُن کے سربراہ کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہونا اب ضروری نہیں ہوگا۔ یوں تعلیمی ادارے اب حکومت کی سرپرستی، بالادستی کے حامل ہوجائیں گے جس کا شکوہ بے بسی سے وزیراعلیٰ سندھ میڈیا میں کرچکے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے اس کو طلبہ یونین کی بندش سے مشابہ بھی قرار دیا۔ یہ بل جو گورنر سندھ نے اعتراض کے ساتھ لوٹایا اس کی دوبارہ منظوری دے دی۔

سندھ میں تعلیم کا حال بہت بُرا ہے اس کا معیار قیام پاکستان سے قبل اتنا بلند تھا کہ بقول سید امداد محمد شاہ فرزند جی ایم سید تعلیمی تن آسانی کے لیے سندھ کے طالب علم ممبئی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے، اس انتظامی تبدیلی سے حکومتی گرفت یونیورسٹیوں پر ہونے سے سیاسی تقرر تباہ کن ثابت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جو کچھ یوں بھی سمجھا جارہا ہے کہ فریق ثانی پر تعلیم سے ترقی کے در بند کرکے اس دسترس سے دور کردیے جائیں جس کی مبینہ ریہرسل حال ہی میں کراچی کے انٹر کے امتحانات میں بورڈ کے ذریعے بڑی تعداد کو فیل کرکے یا اتنے کم نمبر دے کر کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہی نہ ہوسکیں کی منظر عام پر آئی اب وی سی کے ذریعے اسی قسم کا خطرہ اس وجہ سے بھی کہ اپنوں کو نوازنے کا مرض پبلک سروس تک پھیل چکا ہے، اس کے درد سر اور بدنامی کا علاج ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو انٹر کے امتحانات کے رزلٹ کی صورت کیا گیا، ڈومیسائل، پی آر سی، ڈی، پھر بورڈ اور اب یونیورسٹی پر دسترس۔ حکیم محمد سعید جو پی پی پی کے گورنر سندھ بھی رہے کا ایک مطبوعہ انٹرویو ملاحظہ کریں جو چشم کشا ہے۔

جنرل محمد ضیا الحق نے ایک ہی وقت میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور ہمدرد یونیورسٹی کو چارٹر مرحمت فرما دیا یہ دونوں مرکزی فیڈرل یونیورسٹیاں قرار پائیں۔ وزارت تعلیم کے ایک عظیم بیورو کریٹ نے لاہور یونیورسٹی کو چارٹر عطا فرما دیا وہ فیڈرل یونیورسٹی بنی اور ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سندھ حکومت کو بھجوادیا اور فرمایا یہ صوبائی سبجیکٹ ہے یہ سراسر ناانصافی تھی اور بدترین صوبائیت تھی جس کے مرتکب مرکزی سیکرٹری تعلیم ہوئے۔ سندھ حکومت نے ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سات سال کے بعد مجبوراً عطا کیا۔ مجبوری یہ تھی کہ صدر پاکستان غلام اسحاق نے گورنر سندھ محمود ہارون کی تحریک پر فیصلہ کیا کہ وہ چارٹر عطا کریں گے اور 3 جون 1991ء کو انہوں نے کراچی آکر چارٹر عطا کرکے سندھ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس چارٹر کی منظوری دے، یہ بدترین قسم کی بے انصافی تھی، تعلیم و ترقی کی راہیں کھوٹی مت کرو تقسیم سے تعمیر نہیں تخریب جنم لیتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گورنر سندھ

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹائمز ہائرایجوکیشن ایشیا یونیورسٹی رینکنگ، پاکستانی جامعات کی پوزیشن کیا ہے؟
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • بلوچستان کی قابل فخر آئی ٹی یونیورسٹی جہاں طلبہ وطالبات پُرامن ماحول تعلیم حاصل کر رہے ہیں
  • حکومت کاشتکاروں کو گندم کی پوری قیمت دے، ہم عوام کے اتحادی: گورنر 
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • امریکا میں ہاؤسنگ اسکیم مع مسجد کا منصوبہ، حکومت نے نفاذ شریعت کے خوف سے مسترد کردیا
  • عمرسرفراز چیمہ کا جسمانی ریمانڈ، سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
  • فیصل بینک کے اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ حبیب یونیورسٹی
  • سندھ حکومت کا محکمہ تعلیم میں 90 ہزار اساتذہ بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا