سندھ میں جامعات کا نظام دو نیم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
صوبائی حکومت نے سندھ اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں گورنر سندھ کی جانب سے اعتراض شدہ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2025ء جو وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے پیش کیا، اپوزیشن کے بھرپور احتجاج کے باوجود پاس کر ڈالا۔ اس موقع پر شرجیل انعام میمن نے اپنے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ جن لوگوں نے احتجاج کیا اُن میں سے کسی نے بل کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ آئندہ ہر قابل و اہل شخص یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کے تحت پہلے مرحلے میں چانسلر جو گورنر ہوا کرتا تھا یہ گراں قدر عہدہ وزیراعلیٰ کو دیا اور اب رہی سہی کسر سب سے اعلیٰ درس گاہ کی زمام کو صلائے عام کر ڈالا۔ اس ایکٹ کے تحت پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے نظام کو دو نیم کرکے انتظامی اور تعلیمی شعبوں میں بانٹ کر کڑوا بنادیا گیا ہے۔ انتظامی سربراہ وائس چانسلر، فنانس ڈائریکٹر وغیرہ کا تقرر بیوروکریسی سے بھی ہوسکے گا۔ حاضر سروس اور ریٹائر بیوروکریٹ دونوں ہی حقدار ہوسکتے ہیں۔ درس و تدریس پروفیسر صاحبان کریں گے جو کر ہی رہے ہیں اُن کے سربراہ کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہونا اب ضروری نہیں ہوگا۔ یوں تعلیمی ادارے اب حکومت کی سرپرستی، بالادستی کے حامل ہوجائیں گے جس کا شکوہ بے بسی سے وزیراعلیٰ سندھ میڈیا میں کرچکے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیموں نے اس کو طلبہ یونین کی بندش سے مشابہ بھی قرار دیا۔ یہ بل جو گورنر سندھ نے اعتراض کے ساتھ لوٹایا اس کی دوبارہ منظوری دے دی۔
سندھ میں تعلیم کا حال بہت بُرا ہے اس کا معیار قیام پاکستان سے قبل اتنا بلند تھا کہ بقول سید امداد محمد شاہ فرزند جی ایم سید تعلیمی تن آسانی کے لیے سندھ کے طالب علم ممبئی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے، اس انتظامی تبدیلی سے حکومتی گرفت یونیورسٹیوں پر ہونے سے سیاسی تقرر تباہ کن ثابت ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جو کچھ یوں بھی سمجھا جارہا ہے کہ فریق ثانی پر تعلیم سے ترقی کے در بند کرکے اس دسترس سے دور کردیے جائیں جس کی مبینہ ریہرسل حال ہی میں کراچی کے انٹر کے امتحانات میں بورڈ کے ذریعے بڑی تعداد کو فیل کرکے یا اتنے کم نمبر دے کر کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہی نہ ہوسکیں کی منظر عام پر آئی اب وی سی کے ذریعے اسی قسم کا خطرہ اس وجہ سے بھی کہ اپنوں کو نوازنے کا مرض پبلک سروس تک پھیل چکا ہے، اس کے درد سر اور بدنامی کا علاج ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو انٹر کے امتحانات کے رزلٹ کی صورت کیا گیا، ڈومیسائل، پی آر سی، ڈی، پھر بورڈ اور اب یونیورسٹی پر دسترس۔ حکیم محمد سعید جو پی پی پی کے گورنر سندھ بھی رہے کا ایک مطبوعہ انٹرویو ملاحظہ کریں جو چشم کشا ہے۔
جنرل محمد ضیا الحق نے ایک ہی وقت میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور ہمدرد یونیورسٹی کو چارٹر مرحمت فرما دیا یہ دونوں مرکزی فیڈرل یونیورسٹیاں قرار پائیں۔ وزارت تعلیم کے ایک عظیم بیورو کریٹ نے لاہور یونیورسٹی کو چارٹر عطا فرما دیا وہ فیڈرل یونیورسٹی بنی اور ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سندھ حکومت کو بھجوادیا اور فرمایا یہ صوبائی سبجیکٹ ہے یہ سراسر ناانصافی تھی اور بدترین صوبائیت تھی جس کے مرتکب مرکزی سیکرٹری تعلیم ہوئے۔ سندھ حکومت نے ہمدرد یونیورسٹی کا چارٹر سات سال کے بعد مجبوراً عطا کیا۔ مجبوری یہ تھی کہ صدر پاکستان غلام اسحاق نے گورنر سندھ محمود ہارون کی تحریک پر فیصلہ کیا کہ وہ چارٹر عطا کریں گے اور 3 جون 1991ء کو انہوں نے کراچی آکر چارٹر عطا کرکے سندھ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس چارٹر کی منظوری دے، یہ بدترین قسم کی بے انصافی تھی، تعلیم و ترقی کی راہیں کھوٹی مت کرو تقسیم سے تعمیر نہیں تخریب جنم لیتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گورنر سندھ
پڑھیں:
سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ڈاکو راج کے خاتمے اور امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں سے بات کرنے کے بجائے آپریشن تیزکرنے کا فیصلہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔سندھ کے عوام نے بدامنی اور ڈاکو راج کے خلاف کشمور سے کراچی اور اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیے لیکن حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی جو کہ بیڈگورننس اور بے حسی کی انتہا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ سالانہ بجٹ میں سیکورٹی اورپھر ڈاکوئوں کے خاتمے کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پانی کم ہوا تو آپریشن کیا جائے گا، اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ڈرون کے ذریعے آپریشن کیا جائے گا اور کبھی پنجاب چلے جانے کا ڈراما کیاجاتا ہے۔ اسی طرح وزیر داخلہ، آئی جی سندھ پولیس کے مختلف بیانات ہیں۔ اب ایک بار پھر وزیراعلیٰ کی جانب سے الگ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ یہ حکومت ہے یا مذاق؟ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ حکمران جماعت کے بااثر رہنماؤں اور مشیروں کی جانب سے مجرموں کی رہائی اور ڈاکوؤں کو خطرناک ہتھیاروں کی فراہمی سے کیوں بے خبر ہیں؟ یہ سب کچھ تو پہلے ہی میڈیا دے چکا ہے۔ شکارپور کے ایک پولیس افسر کی جانب سے ڈاکوئوں کوپیپلز پارٹی سے وابستہ وڈیروں کے بنگلوں کی پشت پناہی حاصل ہونے کی رپورٹ کہاں غائب کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ اگر مراد علی شاہ سندھ میں قیام امن اور ڈاکوئوراج ختم کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں خالی خولی بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تو پارٹی کے ان بااثر لوگوں کے گلے میں پھندا ڈالنا چاہیے جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں اور منافع کے لیے اغوا کی وارداتیں کراتے ہیں اور پھر پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بے رحمانہ آپریشن کیا جائے، تاکہ عوام کو جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جائے اور سندھ میں امن بحال ہو۔