Express News:
2025-07-26@13:56:04 GMT

اردو کا قصور بتلاؤ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے، تو عداوت ہی سہی

 مرزا غالب نے یقیناً یہ شعر کسی دوسرے پیرائے میں کہا ہوگا مگر زمانہ حال کے تناظر میں اس شعر کو پڑھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہماری سلیقے کی چاشنی میں ڈوبی اُردو زبان ہم سے عرض بجا لا رہی ہے۔

میری اپنے قارئین سے گزارش ہے آپ خود سے یہ سوال کریں کہ ہم اپنی قومی زبان ’’اُردو‘‘ کے ساتھ جیسا رویہ اختیارکیے ہوئے ہیں۔ کیا وہ زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا ہے؟ آخر اُردو زبان سے ایسی کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے کہ اُس کو اپنانے میں ہم کو شرم آتی ہے، بولنے میں کتراتے ہیں اور سوتیلی ماں جیسا ظلم اُس پر مسلسل ڈھائے چلے جارہے ہیں؟

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں

 ہمارے ملک میں رہنے والا ہر فرد اُردو زبان سے نالاں نہیں ہے، آٹے میں نمک کے برابر ابھی معاشرے میں کچھ لوگ اور ادارے موجود ہیں جنھوں نے اُردو کی بقاء کا دیپ جلایا ہوا ہے اور جو اُردو بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

میرے الفاظ سے شاید یہ تاثر جھلک رہا ہو کہ رسم الخط اور بول چال کے لیے اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے استعمال کی یہاں مخالفت کی جارہی ہے۔ یقین مانیے ایسا بالکل نہیں ہے اور یہ اس لیے بھی ناممکن ہے کہ اُردو سے محبت کرنے والے کبھی دوسری زبانوں سے بیر پال نہیں سکتے ہیں کیونکہ ہماری شائستہ زبان اُردو خود مختلف زبانوں کا خوبصورت ملن ہے۔ اُردو میں آپ کو فارسی زبان کا گزر ملے گا، عربی زبان کے رنگ نظر آئیں گے اور تو اور اس میں تُرک زبان کے الفاظ کی بھی کثیر تعداد موجود ہے۔

 تاریخِ اردو ادب بیشمار ایسی نامور شخصیات سے بھری پڑی ہے جو انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُردو زبان کی ترویج میں جُٹ گئے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال، ناول نگارکرشن چندر، قلمکار پطرس بخاری، قدرت اللہ شہاب اور آج کے دور کی مشہورکہانی گو عمیرہ احمد اُن گوہرِ نایاب افراد کی فہرست کا حصہ ہیں جنھوں نے بی اے اور ایم اے کے لیے تو انگریزی ادب کو چُنا مگر جب لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا تو اپنی قومی زبان اُردو اور بین الاقوامی شہرتِ یافتہ زبان انگریزی دونوں کے ساتھ خوب انصاف کیا۔

ایک سے زائد زبانیں سیکھنا بہت اچھی بات ہے، محض انگریزی ہی کیوں ہمیں کئی دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل کرنا چاہیے۔ اس دنیا میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے اندر اُس علاقے کی تہذیب سموئے ہوتی ہے جہاں وہ عام بول چال کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جب ہم ایک زبان سے آشنا ہوتے ہیں تو اپنائیت کا سہانا تعلق اُس زبان سے جُڑی تہذیب کے ساتھ بھی قائم کرلیتے ہیں۔ دورِ جدید کے اُردو والے جب اردو سے ہی وفا نہیں کر پا رہے تو دوسری زبانوں سے اپنے نوزائیدہ رشتے کی لاج کیسے رکھ پائیں گے؟ میر تقی میر کہتے ہیں کہ ؎

 بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا

 قہر ہوتا جو باوفا ہوتا

 سن ستر کی دہائی میں اپنے اُردو مضامین پر داد سمیٹنے والے مشہور مصنف رشید احمد صدیقی اُردو زبان کے بارے میں کہتے ہیں کہ، ’’ زبان کے علاوہ اُردو بہت کچھ اور بھی ہے۔ جیسے ایک قیمتی ورثہ، ایک قابلِ قدر روایت، ایک نادر آرٹ، ایک مسحور کُن نغمہ، قابلِ فکرکارنامہ،کوئی پیمانِ وفا یا اس طرح کی کتنی اور باتیں جو محسوس ہوتی ہیں لیکن بیان نہیں ہو پاتیں۔‘‘

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اُردو کو وہ عزت و مرتبہ دے ہی نہیں پا رہے جس کی وہ مستحق ہے۔ بحیثیتِ قوم ہم ناقدرے ہوچکے ہیں، اپنے قیمتی اثاثوں کی بے حرمتی کس طرح کی جاتی ہے کوئی ہم سے سیکھے۔ درحقیقت اُردو کو پھلنے پھولنے کے لیے پاکستانیوں کی رتی برابر ضرورت نہیں ہے، ہم اس سے تعلق توڑ بھی دیں تو اُردو کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اُردو زبان ہماری مدد کے بغیر بھی دوسری قوموں میں اپنی جگہ آسانی سے بنا رہی ہے، کہیں اپنی اصل شناخت میں،کسی جگہ ہندی زبان کا چوغا پہن کر اور بعض مقامات پر ہندوستانی بولی کی حیثیت سے۔

ہمارا برادر عزیز ملک ’’چین‘‘ بھی اُردو کے قدر دانوں میں شامل ہے۔ چینی باشندے باقاعدہ اُردو زبان سیکھ کر اُردو سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دسمبر، سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق بیجنگ فارن اسٹیڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ پروفیسر زہؤ یوآن (Zhou Yuan) کا کہنا ہے کہ چین کی نوجوان نسل میں اُردو زبان کو لے کر بڑھتی دلچسپی کا اندازہ ’’ بی ایف ایس یو‘‘ کے شعبہ اُردو میں داخلہ لینے والے چینی طالب علموں کی بڑی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بے مثال دوستی کا رشتہ کئی دہائیوں سے قائم و دائم ہے۔ چین نے ضرورت پڑنے پر پاکستان کی ہر بار مدد کی ہے لیکن کیا ہی خوب ہوتا جو ہم چین سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ اُس کی کچھ اچھی عادتیں بھی اپنا لیتے۔ چین کی آسمان کو چھوتی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چینی لوگ اپنی زبان کو اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں اور دیگر زبانوں پر مہارت رکھنے کے باوجود عام گفتگو کے لیے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی چینی زبان کا ہی استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیمِ برصغیر سے قبل ہندوستان میں امن وامان کی فضا قائم کرنے کے لیے جو چودہ نکات پیش کیے تھے اُن میں بھی پرزور طریقے سے مسلمانوں کے مذہب اور زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایک آزاد ریاست کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے بے تحاشا قربانیاں دیں اور ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا مگر شاید آج بھی اکثر پاکستانی غلامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم نے 1947 میں اپنے آباؤ اجداد کی بدولت جسمانی آزادی تو حاصل کرلی تھی مگر چونکہ ذہنی اعتبار سے آج بھی خود کو دیگر اقوامِ عالم کے مقابلے میں کمتر محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی قومی زبان پر نازاں ہونے میں عار محسوس کرتے ہیں، اسی لیے آزادی حاصل کرنے کے اتنے سال بعد بھی ہم غلام ہی کہلائے جائیں گے۔

انگریزوں کو اس خطے سے گئے، کئی برس بیت چکے ہیں مگر انگریزی زبان کو آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک ہمارے تمام ملکی ادارے انگریزی زبان میں اپنے انتظامی امور انجام دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس گوروں کے کسی دیس کا ملکی نظام اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو کوئی ایک بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری سطح پر اہمیت دیتا دکھائی نہیں دے گا۔

چلیں زیادہ دور نہ جائیں بس اپنے اردگرد کا جائزہ لے لیں پاکستان میں ہر دوسرا بندہ اُردو زبان میں بات چیت کرنے والے کو ان پڑھ سمجھتا اور جانتے بوجھتے اردو زبان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ادا کر کے خود کو cool بناتا نظر آئے گا۔ ایسے پاکستانیوں پر اُردو زبان کی یہ کہاوت بالکل صادق بیٹھتی ہے، ’’ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔‘‘

 دنیا کی نظروں میں عزت بنانے سے پہلے خود کی نظروں میں باعزت ہونا بہت ضروری ہے۔ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن کو قابلِ قدر نہ جان کر اُن کی بیحرمتی کرتی ہیں وہ کبھی ترقی کی راہوں کا مسافر نہیں بن سکتیں۔ ہم دنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے اپنا تعلق قائم کرلیں مگر ساتھ اپنی قومی زبان اُردو سے اپنے رشتے کو سینچنے کا عمل بھی منقطع نہ کریں، جب پاکستانی قوم مجموعی طور پر ایسا کرے گی تب ہمارے اورکامیابیوں کے درمیان حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی اور پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کے کندھے سے کندھا ملا کر پُراعتمادی کے ساتھ اپنے اچھے دنوں کو خوش آمدید کہے گا، ربِ کریم ہمیں وہ دن دیکھنا جلد نصیب فرمائے۔ (آمین)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی قومی زبان کرتے ہیں نہیں ہے زبان کا زبان کے زبان کو کے ساتھ اپنے ا کے لیے

پڑھیں:

جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟

عطاء اللہ ذکی ابڑو

آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • قصور: کھیت سے گلا کٹی ہوئی ملنے والی لڑکی دم توڑ گئی، مقدمہ درج
  • چُن چُن کر سزائیں دی جا رہی ہیں، کوئی تو ہے جو خوفزدہ ہے، علیمہ خان
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اسرائیلی فوج کے لیے اسلام اور عربی زبان کی تعلیم لازمی کیوں قرار دی گئی؟
  • قصور میں سڑک کنارے گلہ کٹی 14 سالہ لڑکی بے ہوشی کی حالت میں برآمد
  • اک چادر میلی سی
  • کمالیت پسندی: خوبی، خامی یا ایک نفسیاتی مرض!
  • حمزہ علی عباسی کو حجاب سے متعلق متنازع بیان دینا مہنگا پڑگیا
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی 10 زبانوں میں اردو کا نمبر کونسا ہے؟