خود کلامی کرنا ذہنی مرض کی علامت ہے: تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ بے دھیانی میں خود کلامی کرتے ہیں، بظاہر یہ عمل غیر معمولی سا لگتا ہے، لیکن یہ کوئی مرض یا بری بات نہیں، اس کے کئی فوائد بھی ہیں۔خود کلامی ایسی عادت نہیں جو بڑھ کر لت بن جائے یا ذہنی مرض کی علامت ہو، بعض لوگوں میں یہ عادت توقعات سے زیادہ عام ہوتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق خیالات کو زبانی طور پر بیان کرنے سے دماغ کے مختلف حصے متحرک ہوتے ہیں، جس سے وضاحت مسئلہ حل کرنے کی مہارت اور فیصلہ کرنے میں بہتری آتی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود سے باتیں کرنا کسی ذہنی بیماری کی علامت تو نہیں؟اس حوالے سے دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر لورا ایف ڈیبنی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ خود سے باتیں کرنا نارمل اور بہت عام ہوتا ہے، یہ عمل جذباتی توازن بہتر بناتا ہے، منفی جذبات کو کم کرکے اضطراب اور تناؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔دی آرٹ آف ٹاکنگ ٹو یورسیلف کی مصنفہ ویرونیکا ٹوگالیوا کے مطابق ‘سچ تو یہ ہے کہ ہم سب ہی اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اس طرح اونچی آواز میں بات کرنا عجیب لگے، مگر ہم سب ہی اپنے ذہنوں میں ایسا کرتے ہیں، جو اپنی روزمرہ کی زندگی کے کاموں اور چیزوں کی وضاحت کے لیے کرتے ہیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ خود سے باتیں کرنے سے سوچنے کا زیادہ منطقی زاویہ حاصل ہوتا ہے، جو چیلنجز سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔خود کلامی نہ صرف ذہنی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے بلکہ مسائل حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ماہرین کے خیال میں خود کلامی کو ذہنی دھیان یا ہوشیاری سے بھی جوڑا جاسکتا ہے، ان کے بقول مشکل وقت میں ہمارا ذہن ہمیں تاریکی کی جانب لے جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مثبت انداز سے خود کلامی کو عادت بنانا اس سے بچنے کے لیے ایک اچھی مشق بھی ہوسکتی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: خود کلامی کرتے ہیں سے باتیں ہوتا ہے
پڑھیں:
شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
ایک نئی اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شادی میں تاخیر سے شہری علاقوں میں رہنے والی پاکستانی خواتین میں موٹاپے کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔
ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ شادی کے بعد مرد و خواتین کا وزن بڑھتا ہے اور بعض جوڑوں میں شادی موٹاپے کا سبب بھی بنتی ہے۔
طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق سال 2012-13 اور 2017-18 کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں نصف سے زیادہ بالغ خواتین زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں لیکن شادی میں تاخیر کا اثر شہری خواتین کے وزن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کم عمری میں شادی کرنے سے موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ کم عمری میں خواتین کی زرخیزی کی وجہ سے ان پر بچے پیدا کرنے کا دباؤ ہوتا ہے جب کہ ان میں تعلیم، صحت سے متعلق معلومات اور گھریلو فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی ہے۔
مذکورہ تحقیق یونیورسٹی آف یارک کی سربراہی میں کی گئی، اس میں بتایا گیا ہے کہ صنفی سماجی روایات اور شہری زندگی مل کر پاکستان میں موٹاپے کی شرح بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ شادی میں تاخیر سے خواتین کو زیادہ تعلیم، خواندگی اور صحت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے، اس سے وہ بہتر صحت مند عادات اپناتی ہیں اور غذائیت پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
اسی طرح شادی میں تاخیر سے اکثر شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا فرق کم ہوتا ہے، جس سے خواتین کو خوراک سمیت گھر میں فیصلہ سازی کا زیادہ اختیار ملتا ہے۔
یہ تحقیق اس سے پہلے کے شواہد پر مبنی ہے کہ شادی میں تاخیر سے تعلیم، روزگار کے مواقع، فیصلہ سازی کی طاقت، خواتین کی صحت اور ان کے بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں تقریبا 40 فیصد خواتین 18 سال سے کم عمری میں شادی کر لیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں رہنے والی خواتین کے لیے شادی میں ہر اضافی سال کی تاخیر سے موٹاپے کا خطرہ تقریباً 0.7 فیصد کم ہوتا ہے اور 23 سال یا اس کے بعد شادی کرنے والی خواتین اس سے زیادہ فائدہ حاصل کر پاتی ہیں۔