Islam Times:
2025-04-25@07:27:41 GMT

انا علی العھد

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

انا علی العھد

اسلام ٹائمز: ہم آپ کے سکھائے ہوئے ہر عہد پر باقی رہیں گے۔ مکتب حسینی کی صحیح تفسیر سے جڑے رہیں گے۔ دنیا میں عدل الہی کے قیام، اسلامی تمدن کے احیاء، ظہور حضرت حجتؑ اور اس زمین پر کلمۂ توحید کی سربلندی تک، حق و باطل کے اس معرکے میں اسلامی مقاومت، اسلامی انقلاب اور عالم اسلام کے عزیز ترین و عالم بزمان فقیہ و عادل رہبر کے وفادار رہیں گے اور ہر ظلم و بربیت کے سامنے ڈٹے رہیں گے۔ تحریر: سید محمد روح اللہ رضوی
قم مقدسہ، ایران

سالہا سال سے مانوس اس آواز کو بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ امام زمانہؑ کے سچے سپاہی کی آواز، فتح مبین کے موقع پر آپ کا "یا اشرف الناس و اکرم الناس و اطھر الناس!!! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ" سے شروع ہونے والا خطاب۔ آپ کا رسول اللہؐ سے تجدید بیعت کرنا اور کروانا "يا رسول الله! فداك نفسي ودمي وأبي وأمي وأهلي وولدي، وكل مالي وما خوّلني ربي۔ یا رسول اللہ! میری جان، ماں باپ، بیوی بچے، ہر چیز آپ پر قربان۔ ہمارا خون، ہماری جانیں، اولاد، زندگی کچھ نہیں ہے رسول اللہؑ کی عزت و کرامت اور شرف کے سامنے۔ لبیک یا رسول اللہؐ"۔

روز عاشور لبیک یا حسینؑ کا معنی سمجھانا "لَبّیکَ یا حُسَین یَعنی أنَّکَ تَکونُ حاضِراً فی المَعرَکَه وَلو کُنتَ وَحدَه۔ یعنی تم میدان میں حاضر رہو چاہے تنہا ہی ہو، یعنی تم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہو، یعنی جب ایک ماں اپنے جوان کو جنگ کے لئے میدان میں بھیجے اور پھر اس کا کٹا سر واپس آئے تو اس کے چہرے سے خون صاف کرکے اس سے کہے میں تجھ سے راضی ہوں کہ تو نے مجھے سیدہ فاطمہ الزہراء ؑ کی بارگاہ میں سرخرو کردیا۔ هذا یَعنی لََبَّیکَ یا حُسَین"۔ روز عاشور مصائب پڑھنا، سید الشہداءؑ و جناب زینبؑ کی مصیبت پر گریہ کرنا، بالخصوص وہ الفاظ دہراتے ہوئے گریہ کرنا جب سید الشہداءؑ اپنا سب کچھ قربان کرکے اللہ کی بارگاہ میں دست دعا بلند کرتے ہیں "أرَضیتَ یا ربّ"

آپ کا اصحاب سید الشہداءؒ کے کلمات دہرانا ان کی وفاداری کے تذکرے کرنا، زہیر بن قینؑ اور سعید بن عبداللہؑ کے الفاظ دہرانا اور ایسے دہرانا گویا خود سید الشہداءؒ کے محضر میں تجدید بیعت کررہے ہوں "لو علمت أني أقتل ثُمَّ أحيا ثُمَّ أحرق و يفعل ذَلِكَ بي سبعين مرة۔ اگر میں جان لوں کہ مجھے قتل کیا جائے گا، پھر زندہ کیا جائے گا، پھر جلا دیا جائے گا اور یہ کام میرے ساتھ ستر مرتبہ انجام پائے گا مَا ترکناک یا حسینؑ، تو بھی اے حسین بن علیؑ میں اپ کو تنہا نہیں چھوڑوں گا۔" پھر عصر حاضر میں حق و باطل کے معرکے پر صراحت کے ساتھ خیمہ حسینی کے بارے میں فرمانا "و امام ھذا المخیم  ھو الامام الخامنئی" کہ آج اس خیمہ حسینی کے رہبر سید علی خامنہ ای ہیں اور پھر یہ صدا بلند کرنا "ما ترکناک یا ابن الحسینؑ" اے فرزند حسینؑ، ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

تمام پروپگنڈوں، سازشوں اور ظلم و ستم کے باوجود اپنے اصولوں سے پیچھے نہ ہٹنا اور شفاف آواز میں دنیا کو بتادینا کہ "نحن شیعة علی بن أبی طالب فی العالم لن نتخلى عن فلسطین ولا عن شعب فلسطین ولا عن مقدسات الأمة فی فلسطین۔ ہم علی بن ابی طالبؑ کے شیعہ فلسطین سے دستبردار نہیں ہوسکتے، نہ فلسطینی قوم سے اور نہ ہی فلسطین میں موجود مقدسات سے"۔ اور پھر انہی اصولوں پر اپنی جان دے دینا۔ آپ کا مسکراتے ہوئے فارسی بولنا "چشم ما روشن دل ما شاد شد" "شوی شوی!! یواش یواش!!"۔

ان یادوں کے ساتھ آپ سے وعدہ ہے کہ ہم آپ کے سکھائے ہوئے ہر عہد پر باقی رہیں گے۔ مکتب حسینی کی صحیح تفسیر سے جڑے رہیں گے۔ دنیا میں عدل الہی کے قیام، اسلامی تمدن کے احیاء، ظہور حضرت حجتؑ اور اس زمین پر کلمۂ توحید کی سربلندی تک، حق و باطل کے اس معرکے میں اسلامی مقاومت، اسلامی انقلاب اور عالم اسلام کے عزیز ترین و عالم بزمان فقیہ و عادل رہبر کے وفادار رہیں گے اور ہر ظلم و بربیت کے سامنے ڈٹے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سید الشہداء رسول اللہ رہیں گے

پڑھیں:

فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی

اسلام ٹائمز: عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہوگیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

سعودی وزیرِ دفاع کا دورۂ ایران ایک غیر معمولی سفارتی اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب ایران امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر مذاکراتی عمل میں مصروف ہے، اسرائیل کے ساتھ شدید تنازع میں ہے اور یمن کے مسئلے پر بھی سعودی پالیسی سے متضاد موقف رکھتا ہے۔ سعودی ولی عہد بن سلمان کے بڑے معاشی منصوبے خطے میں دیرپا امن کے متقاضی ہیں، جبکہ امریکہ کی قیادت سیاسی حکمتِ عملی کے میدان میں بے صبری، عجلت اور جارحانہ طرزِ عمل کا مظہر بن چکی ہے اور اسرائیل بدستور غیر مشروط امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ ایران اس صورتِ حال پر محض بیانات تک محدود نہیں، بلکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لیے بھی تیار ہے۔ فلسطینی محاذ پر وہ عسکری سطح پر اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہے کہ وہ مزاحمت کے ہر راستے پر قائم ہے۔ تاہم، شام کے بحران کے بعد وہ راستے، جن کے ذریعے ایران فلسطین اور حزب اللہ کی عملی مدد کرتا تھا، بڑی حد تک منقطع ہو چکے ہیں۔

اس کے برعکس سعودی عرب کا حمایت یافتہ دو ریاستی حل، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے، اسے خطے میں ایک معمول کی حیثیت دینے اور اس کے ساتھ معاشی تعاون پر مبنی ہے، اس امید پر قائم ہے کہ اس سے خطے میں بڑے معاشی منصوبوں کے لیے امن و استحکام کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ تاہم، دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں "گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ حالات کو نہایت پیچیدہ اور تشویشناک بنا رہا ہے۔ یہ منصوبہ تین ہزار سال پرانی یہودی سلطنت کی سرزمینوں کو مذہبی و تاریخی قلمرو قرار دے کر سامنے آ گیا ہے اور فلسطینی عوام کے لیے متبادل عرب علاقوں کی تجاویز پیش کر رہا ہے۔ اب یہ منصوبہ صرف فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے خطے کی جغرافیائی اور نظریاتی تشکیلِ نو کا ایجنڈا بن چکا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچی ہے، جہاں پسپائی بھی خطرے سے خالی نہیں اور پیش قدمی بھی اندیشوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں اس بند گلی کو مزید تنگ کرتی جا رہی ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انیس ماہ کی جاری جنگ کے دوران سامنے آنے والی خاموشی اور غیر فعالیت کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے سعودی عرب کی وہ پالیسی کارفرما تھی جو مسئلہ فلسطین کو صرف دو ریاستی حل کی عینک سے دیکھتی ہے۔ یہ پالیسی اسرائیل کے ساتھ ممکنہ شراکت داری کے امکانات کو ترجیح دیتی ہے، چاہے اس کے لیے فلسطینی مزاحمت کو پسِ پشت ڈالنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اس مقصد کے لئے جنگ کے دوران بھی ایک ہمہ جہت اور نہایت پیچیدہ حکمتِ عملی اختیار کی گئی، جس کے تحت مزاحمتی بیانیے کو امت کے دینی و اجتماعی شعور سے کاٹ کر اسے محض ایک مسلکی ایجنڈا ثابت کیا گیا اور اسلامی مزاحمت کو دانستہ طور پر فرقہ واریت کے خانے میں مقید کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ اسے امتِ مسلمہ کا مشترکہ فریضہ ماننے کے بجائے اہلِ تشیع کا مخصوص ہدف باور کرایا جا سکے۔

اہلِ سنت مذہبی طبقات کو اس انداز سے متاثر کیا گیا کہ گویا فلسطین کی جنگ دراصل ایران اور حزب اللہ کے مسلکی عزائم کا پرتو ہے۔ یہ تاثر پھیلایا گیا کہ اگر یہ مزاحمت کامیاب ہوئی تو اس کا سارا کریڈٹ ایران کو جائے گا، اور یوں ایران مسلم دنیا میں ایک قائدانہ مقام حاصل کر لے گا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بعض مذہبی شخصیات نے سرِ عام یہ دعویٰ کیا کہ ایران اس جنگ کو سنیوں کو شیعہ بنانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ کہیں اسے سعودی ایران پراکسی جنگ قرار دے کر غیر جانبدار رہنے کا سبق پڑھایا گیا، تو کہیں سکوت و خاموشی کو حکمت و بصیرت کے قالب میں پیش کیا گیا۔ مذہبی وحدت کے کسی بھی اشارے کو کچلنے کے لیے پاکستان میں شیعہ علما کو اتحادِ امت کی کسی بھی کوشش میں دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا تاکہ فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کی کوئی علامت ابھرنے نہ پائے۔ اسی مہم کو تقویت دینے کے لیے ایران کے مزاحمتی ماڈل کو غیر عملی اور نقصان دہ قرار دے کر انسانی حقوق، سیاسی حل، اور ریلیف جیسے "نرم" بیانیوں کو آگے لایا گیا۔ حماس کی قیادت کو تقسیم کر کے ایران سے دور کرنے کی کوششیں کی گئیں، جب کہ فلسطین اتھارٹی کے لیے متبادل مالی وسائل، سفارتی پشت پناہی، اور "ابراہیم معاہدات" جیسے اقدامات کے ذریعے فلسطینی بیانیے کو عرب اسٹیبلشمنٹ کے تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔

عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہو گیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا یہ واقعی فلسطین سے مخلصانہ ہمدردی ہے، یا کسی اور ایجنڈے کا حصہ؟ سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اٹھے؟ اور پہلے 19 ماہ کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے؟ یہ بات مسلمہ ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات ایسے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جو بعض اوقات شدید ظلم پر بھی خاموشی اختیار کروا دیتے ہیں، اور کبھی اچانک انہیں جوش دلا دیتے ہیں جن کی شناخت ضروری ہے۔

یہ تمام تحرک اس صورتِحال کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک خلیجی ریاستیں ہوں گی، کیونکہ ایران کے ابتدائی اہداف وہ امریکی فوجی اڈے ہوں گے جو انہی عرب ممالک کی سرزمین پر قائم ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایران کیخلاف کسی ممکنہ تنازعے کی صورت میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری حمایت ان کے مفادات کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ عرب ممالک خصوصاً پاکستان کی حمایت کو "دفاعِ حرمین شریفین" جیسے مقدس اور حساس مقصد کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی حمایت، سفارتی تعاون، اور ممکنہ دفاعی شراکت کو اپنی حکمتِ عملی کا اہم جزو بنا رہے ہیں۔

آج فلسطین کا مسئلہ صرف ایک انسانی المیہ یا علاقائی تنازع نہیں رہا، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور، نظریاتی یکجہتی، اور عالمی عدل کے تصور کا کڑا امتحان بن چکا ہے۔ اس قضیے میں فرقہ واریت، علاقائی سیاست اور عالمی طاقتوں کے مفادات اس حد تک در آئے ہیں کہ اصل حقیقت تک رسائی اور اس پر ثابت قدمی خود ایک مستقل مزاحمت کا روپ دھار چکی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطین کی حمایت کو کسی سیاسی مصلحت، مسلکی تعصب یا خارجی دباؤ سے بالا تر ہو کر خالصتاً حق و انصاف کی بنیاد پر اپنایا جائے۔ یہ معرکہ صرف زمین یا وسائل کا نہیں، بلکہ یہ حق و باطل کے درمیان وہ تاریخی جدوجہد ہے جو ہماری دینی غیرت، فکری پختگی، اور انسانی شعور کی آخری آزمائش بن چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت تنازع: ہم کراچی سے گلگت تک ہائی الرٹ رہیں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • مریم اورنگزیب کی گاڑی کو حادثہ، محفوظ رہیں
  • ہمارے شہریوں کو کچھ ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وفاقی وزرا
  • حر جماعت افواج پاکستان کے شانہ بشانہ رہیں، پیر پگارا کا حکم
  • پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
  •  فلسطین سے ملحقہ 23 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، خواجہ سلیمان صدیقی 
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی عمرانی ہاؤس آمد ، سردار غلام رسول عمرانی کے چچا کے انتقال پر تعزیت و فاتحہ خوانی کی
  • جولانی حکومت نے فلسطین اسلامی جہاد کے دو سینیئر اہلکاروں کو گرفتار کر لیا
  • جے یو آئی، جماعت اسلامی کا فلسطین پر ملک گیر مہم چلانے کا اعلان
  • فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی