ملک غلط حکمرانوں کے ہاتھ میں آ کر بحران میں گھرا ہوا ہے ،اپوزیشن رہنماؤں کی گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
عمران خان نے خط کے ذریعے اداروں اور قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے ، وہ خط کے ذریعے کوئی ریلیف نہیں مانگ رہے ، بانی اداروں کو کہہ رہے ہیں، آئین کی پاسداری کرو، تمام اداروں نے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے
26نومبر کو نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ،خواجہ آصف،آئی جی پنجاب ذمہ دار ہے ، یہ فسطائیت کا دور ہے ، ملک کو بے آئین سرزمین بنا دیا گیا ہے ، پیکا ایکٹ کومسترد کرتے ہیں، نیوز کانفرنس
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک غلط حکمرانوں کے ہاتھ میں آ کر بحران میں گھرا ہوا ہے ۔تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنمائوں کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک تھا، غلط حکمرانوں کے ہاتھ آگیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سب کچھ آئین کے مطابق ہوگا، تب ہی پاکستان ترقی کی طرف آسکتا ہے ، دیر سے آئے درست آئے ، ہم سب ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک آئین کی بالادستی نہیں ہوگی ملک نہیں چل سکتا، 20 کروڑ روپے لے کر پارلیمنٹ میں بھیجا جاتا ہے ، آج پاکستان میں جو آدمی اپنا ضمیر بیچ دیتا ہے وہ وفادار ہے ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جو سچ بولتا ہے ، جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے وہ غدار ہے ، پورا ملک جانتا ہے انتخابات پی ٹی آئی جیت چکی ہے ۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما سلمان اکرم راجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم کسی کی خوشامد پر یقین نہیں رکھتے ، اس وقت عوام کنفیوژ ہیں۔ملک کی عوام کوجمہوریت اورحقوق چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں، ہم سب کے حقوق یکساں ہیں، ہم سب نے اپنے حقوق کے لیے اکٹھے لڑنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام کو جمہوریت اورحقوق چاہئیں، عوام چاہتے ہیں ان کے ووٹ کی عزت ہو، جمہوریت کے علاوہ پاکستان کا اور کوئی مستقبل نہیں۔سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی نے کہاکہ عمران خان نے خط کے ذریعے اداروں اور قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے ، وہ خط کے ذریعے کوئی ریلیف نہیں مانگ رہے ، بانی اداروں کو کہہ رہے ہیں، آئین کی پاسداری کرو، تمام اداروں نے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ پارلیمان عوام کی نمائندہ نہیں ہے ، وفاق کی جانب سے صوبوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں۔اس موقع پر رہنما تحریک انصاف سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26نومبر کو نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ،خواجہ آصف،آئی جی پنجاب ذمہ دار ہے ، یہ فسطائیت کا دور ہے ، ملک کو بے آئین سرزمین بنا دیا گیا ہے ، پیکا ایکٹ کومسترد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بانی نے بھی اسی لیے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے ، چیف جسٹس نے کہا عمران کے خط کوآئینی بینچ کو بھیج دیا ہے ۔چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے کہاکہ 26نومبرکی ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دی گئیں، یہ ڈھٹائی کیساتھ جھوٹ بولتے ہیں، پاکستان کے آئین کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے وہی خط چیف جسٹس آف پاکستان کوبھی بھیجا ہے ۔رہنما تحریک انصاف اسد قیصر نے کہا کہ ہماری حکومت میں ایک ڈرون حملہ نہیں ہوا تھا اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے ، خیبرپختونخوا کا مسئلہ امن وامان نہیں غلط فارن پالیسی کی وجہ سے ہے ، تحریک انصاف کی حکومت نے افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے