وہ بے چاری بھوک سے مر گئی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج سے نیچے اتریں تو آپ کو دائیں جانب تھانہ نیلہ ملے گا‘ اس تھانے میں یکم فروری کو ایک گم نام خط موصول ہوا جس میں انکشاف کیا گیا گھکھ گاؤں کی ایک حویلی میں ایک لڑکی اور لڑکا دو سال سے بند ہیں‘ کوئی خاتون ہر دوسرے دن کھڑکی کے ذریعے انھیں کھانا دے جاتی ہے‘ یہ دونوں آخری سانسیں لے رہے ہیں‘ یہ خط بارہ دن پولیس کی فائلوں میں گردش کرتا رہا‘ بہرحال قصہ مختصر 12 فروری کو پولیس گاؤں پہنچ گئی‘ گھکھ تھانہ نیلہ سے 25 کلومیٹر دور ہے‘ جنرل فیض حمید کی مہربانی سے گاؤں تک سڑک بن گئی تھی‘ پولیس حویلی تک پہنچی تو اسے حویلی کے ایک کمرے میں بستر پر ایک لڑکی کی نو دس دن پرانی لاش ملی۔
لاش کے اوپر رضائیاں اور دریاں پڑی تھیں‘ لڑکی کی موت بظاہر بھوک اور سردی کی وجہ سے ہوئی تھی‘ وہ مکمل طور پر ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی‘ اس کا کل وزن 10 سے 15 کلو تھا‘ کمرے میں روٹی کے ٹکڑے بھی پڑے تھے جب کہ کونے میں لڑکی کا پاخانہ تھا جو ثابت کرتا تھا وہ کمرے میں بول وبراز کرتی تھی‘ اس کے جسم پر پھٹے پرانے اور بدبودار کپڑے تھے جن سے محسوس ہوتا تھا اس نے سال ڈیڑھ سال سے کپڑے نہیں بدلے‘ بال اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے اور لڑکی نے مدت سے غسل بھی نہیں کیا تھا‘ پولیس نے دوسرہ کمرہ کھلوایا تو اس سے ایک نوجوان لڑکا ملا‘ وہ پولیس کو دیکھ کر چھپنے کی کوشش کرنے لگا‘ پولیس نے بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا ہم تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں‘لڑکے کی حالت بھی خستہ تھی‘ جسم سے بدبو آ رہی تھی‘ بال گندے اور لمبے تھے اور ان میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں‘اس کا جسم بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا‘ وہ نقاہت سے کھڑا تک نہیں ہو پا رہا تھا‘یہ بھی بول وبراز کمرے میں کرتا تھا‘ اس کا کمرہ انتہائی خراب اور گندہ تھا‘ بستر بھی غلیظ تھا‘ پولیس فوری طور پر لاش اور نوجوان کو تھانے لے گئی۔
نوجوان کو گرم پانی سے غسل دیا گیا‘ بال اور ناخن تراشے گئے اور اسے نئے کپڑے پہنائے گئے‘ اسے اچھی خوراک بھی دی گئی‘ یہ برسوں کا بھوکا تھا لہٰذا یہ جانوروں کی طرح خوراک پر پل پڑا‘ نوجوان کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو اس نے ہول ناک اسٹوری سنائی‘ اس کے والد کا نام چوہدری زرین تاج تھا‘ وہ شریف آدمی تھے‘ گاؤں کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے‘ دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا‘ والدہ کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا‘ نوجوان کا نام حسن رضا ہے‘ اس کی عمر 32 سال ہے‘ لڑکی اس کی بہن تھی اور اس کا نام جبین تھا‘ عمر 25 سال تھی‘ لڑکی نے بی ایس سی کر رکھا تھا اور میٹرک میں اس نے راولپنڈی ریجن میں ٹاپ کیا تھا‘ وہ انتہائی محنتی اور ذہین بچی تھی‘ دونوں بہن بھائیوں کو وراثت میں 950 کنال زمین ملی‘ زمین ذرخیز اور قیمتی تھی‘ والدین کے بعد بہن بھائی اکیلے رہ گئے۔
ان کے تایا کے بیٹے تعداد اور اثرورسوخ میں زیادہ تھے لہٰذا تایا زاد چوہدری عنصر محمود نے اپنے بھائیوں اشرف اور شکیل کی مدد سے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا اور دونوں بہن بھائی کو پاگل مشہور کر کے حویلی میں بند کر دیا‘ یہ علاج کے نام پر انھیں ایسی دوائیں بھی دیتا رہتا تھا جس سے ان کا ذہنی توازن بگڑ جائے یا یہ فوت ہو جائیں‘ دونوں بہن بھائی کو دو سال دو مختلف کمروں میں بند رکھا گیا‘ انھیں کپڑے دیے جاتے تھے اور نہ گرمیوں میں پنکھا اور سردیوں میں رضائی‘ کھڑکی سے ان کے کمرے میں روزانہ ایک ایک روٹی اور تھوڑا سا سالن اندر پھینک دیا جاتا تھا‘ یہ بول وبراز بھی کمرے میں کرتے تھے‘ ملزم بااثر تھے‘ مسلم لیگ ن کے ایم این اے ذوالفقار دلہہ کے رشتے دار بھی تھے اور سپورٹر بھی چناں چہ گاؤں کے لوگوں نے ڈر کر ہونٹ سی لیے اور خاموشی سے یہ ظلم دیکھتے رہے‘ اس دوران زمین تایا زاد بھائیوں کے قبضے میں رہی‘ یہ اس پر کھیتی باڑی بھی کراتے رہے اور انھوں نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بھی بیچ دیے۔
لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی ‘ یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9 دن کمرے میں پڑی رہی جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کرموت کا انتظار کر رہا تھا‘ یہاں تک کہ گاؤں کے کسی شخص کو ان پررحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گم نام خط لکھ دیا‘ بہن بھائی کی دوسری خوش نصیبی نیا ڈی پی او تھا‘ احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا‘ یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی ہے۔
احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیایوں دونوں بہن بھائی مل گئے‘ ڈی پی او اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دباؤ برداشت کر رہا ہے‘ نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے‘ یہ ٹراما کا شکار ہے ‘ پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے‘ یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے‘ پولیس نے پہلے مرکزی ملزم عنصر محمود اور پھر اس کے دونوں بھائیوں اشرف اور شکیل کو گرفتار کر لیا‘ ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔
چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں‘ پہلا ورژن میں بیان کر چکا ہوں‘ یہ ورژن جب سامنے آیا تو میڈیا گھکھ گاؤں پہنچ گیا‘ رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گاؤں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالے لگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے‘ اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چاہیے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چاہیے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے‘ ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے‘ دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں‘ یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے‘ پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے لہٰذا ان کے کزنز نے انھیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا‘ یہ ان کی ٹیک کیئر بھی کرنے لگے‘ یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔
اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی‘ دوسرا اگر کزنز ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی ٹیک کیئر کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور کیئر تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انھیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا‘ یہ کمرے ہی میں بول وبراز کرتے تھے‘ دو سال پرانے‘ گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انھیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟ آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں‘ لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انھیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔
ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے‘ کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی‘ وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا‘ میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا‘ میں یہاں ایک اور بات کا اضافہ بھی کرتا چلوں‘ آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں وہ پاگل ہو جائے گا لہٰذا ملزمان کے لیے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو جائیں گے۔
ہم اگر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں‘ اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے‘ دوم‘ والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انھیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہیے‘ حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا‘ میرا خیال ہے والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں‘ ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائین‘ پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گم نام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونیوالے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں۔
مریم نواز کو چاہیے یہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین تخلیق کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکیج کا حصہ ہو گی‘ حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والے شخص کا نام‘ نمبر اور پتہ ہمیشہ راز رہے گا‘ اسے کسی جگہ گواہی کے لیے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر سیٹی بجا سکیں اور آخری بات‘ یہ ہیں ہم اور ہمارا سماج لیکن ہم اس سماج کے ساتھ اس ملک میں فرشتوں کی حکومت چاہتے ہیں‘ کیا یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دونوں بہن بھائی بول وبراز کرتے تھے تھے اور گاؤں کے کا علاج کا نام بھی کر ہے اور تو پھر اور ان دو سال اور اس
پڑھیں:
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی
آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔
وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔
ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔
سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی
بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔
لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی