عمران خان کی 6اور بشریٰ بی بی کی ایک مقدمہ میں ضمانت میں توسیع
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 6 اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ایک مقدمہ میں ضمانت میں توسیع کردی۔
جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں جج افضل مجوکا نے عمران خان اور بشری بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈووکیٹ خالد یوسف چودھری عدالت پیش ہوئے،دوران سماعت ایڈووکیٹ خالد یوسف چودھری نے عدالت کو بتایا کہ ابھی بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو حاضری نہیں کرائی گئی جس پر عدالت نے عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ کیا ابھی تک ویڈیو حاضری کے حوالے سے جیل حکام جواب نہیں آیا؟
پاک سعودی تجارتی تعلقات مزید مضبوط؛ حجم 700 ملین ڈالر تک پہنچ گیا
عدالتی عملے نے جواب دیا کہ ابھی تک جیل حکام کی جانب سے لیٹر نہیں آیا جس پر خالد یوسف چودھری نے عدالت سے استدعا کی کہ پراسیکیوشن کو پابند کریں ہم دلائل دیں گے، پراسیکیوشن کو پابند کر کے وقت مقرر کر دیں، رمضان میں کوئی بھی دن مقرر کر دیں۔
جج افضل مجوکا نے کہا کہ رمضان میں ٹریننگ پر ہوں، عید کے بعد رکھتے ہیں جس پر خالد یوسف چودھری نے کہا کہ عید کے بعد پہلے ہفتے میں نہ رکھیں، میں نے کئی ماہ بعد چھٹیوں کے لئے جانا ہے۔
ویڈیو؛ بھارت سے شکست، مداح نے پاکستانی جرسی کے اوپر بھارتی شرٹ پہن لی
بعدازاں عدالت نے عمران خان کی 6 اور بشریٰ بی بی کی ایک مقدمے میں حتمی بحث و اور بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو حاضری کیلئے سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: خالد یوسف چودھری بانی پی ٹی آئی بی بی کی
پڑھیں:
ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے پنجاب حکومت پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے کروانے کا فیصلہ دراصل عمران خان کو تنہائی کا شکار بنانے کی کوشش ہے، اور ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس وقت براہ راست عدالت میں پیش نہ کرنا ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان کی آواز کو دبانا ہے۔
عمران خان کو گولیاں لگیں، تب بھی وہ عدالت آنے پر مصر تھے
انہوں نے یاد دلایا کہ جب عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ زخموں سے چور تھے، اس وقت بھی انہوں نے ویڈیو لنک کے بجائے عدالت میں بنفسِ نفیس پیش ہونے کو ترجیح دی۔
علیمہ خان نے سوال اٹھایا کہ اگر اُس وقت ویڈیو لنک کی اجازت نہیں دی گئی تو آج ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ “اب ایسا کسی صورت ہونے نہیں دیں گے۔ عمران خان کو عدالت میں پیش کیا جائے، ویڈیو لنک قابلِ قبول نہیں۔”
وکلاء سے مشاورت کیسے ہو گی جب وہ جیل میں ہوں گے؟
علیمہ خان نے ویڈیو لنک ٹرائل کے قانونی اور انسانی پہلو پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کے مطابق، جب عمران خان عدالت میں موجود نہیں ہوں گے تو وہ اپنے وکلاء سے براہ راست مشورہ کیسے کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل کا بنیادی مقصد عمران خان کو قانونی، سیاسی اور ذاتی طور پر مکمل آئسولیٹ کرنا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم پر تحفظات
علیمہ خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے تحت جیلوں میں ٹرائل کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ترمیم صرف عمران خان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، لیکن کل کو کوئی بھی شہری اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ وکلاء برادری کو متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔”
جیل ٹرائل کا مقصد فیملی اور قانونی ٹیم سے دوری ہے
انہوں نے کہا کہ جیل میں ہونے والے ٹرائلز کے باعث اہلِ خانہ اور وکلاء کو عمران خان سے براہ راست ملاقات کا موقع بھی نہیں ملتا۔
انہوں نے کہاکہ توشہ خانہ کیس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کو مکمل آئسولیشن میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے، تاکہ وہ نہ کسی سے بات کر سکیں اور نہ ہی کسی کو اپنے مؤقف سے آگاہ کر سکیں۔”
انڈہ پھینکنے کے واقعے پر برہمی
علیمہ خان نے ان پر انڈہ پھینکنے کے واقعے پر بھی سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کارکنوں نے ان خواتین کو پولیس کے حوالے کیا، لیکن اعلیٰ سطح سے احکامات آتے ہی انہیں چھوڑ دیا گیا۔ کل وہی خاتون دوبارہ آئی اور پتھر پھینکا — اگر یہی روش جاری رہی تو کل گولی بھی چل سکتی ہے۔
انہوں نے سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔