بے مثل محدث، فقیہ و مجتہد امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی 830عیسوی میں خراسان کے علاقے ’’نساء‘‘ موجودہ ترکمانستان میں پیدا ہونے۔ بچپن ہی سے حصول علم کا شوق تھا اپنی یہ پیاس بجھانے کے لئے ملکوں ملکوں پھرے۔ حجاز، شام، عراق اور مصر وغیرہ کے علمی مراکز کی یاترا کی اور وہاں کے جید اساتذہ سے علم حاصل کرنے میں جوانی گزاری۔ اللہ نے بلا کے حافظہ سے نوازا تھا پس اسی کی بدولت علم حدیث میں ملکہ حاصل کیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ علم حدیث کی سند کی تصحیح اور درایت کے اصولوں میں اپنے دورمیں یکتا ٹھہرے۔ ملک مصر کو مستقر بنایا اور درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئے۔آپ کا شمار صحہ ستہ میں ہوا اور ان کی تصنیف’’سنن نسائی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
امام نسائی نے حدیث کی پرکھ کا وپرتال کا اپنا ایک نظام مرتب کیا جو انتہا درجے کی سختی پر مشتمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مجموعہ احادیث میںفقط صحیح اور مستند احادیث کوجگہ دی.
امام نسائی ایک انتہائی ذہین و فطین محدث تھے اور انہونی نے راویوں کی تحقیق سے متعلق خصوصی مہارت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات محدثین ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
امام نسائی کا ایک بڑا وصف یہ تھا کہ وہ داماد نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل کو ذوق و شوق سے بیان کرتے تھے، اسی لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ’’خصائص علی‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی۔ جس میں حضرت علی مرتضیٰ صاحب الصفا رضی اللہ عنہ کے اوصاف جلیلہ کاتفصیل سے ذکر کیا۔
امام نسائی اہل بیت سے بھی والہانہ محبت رکھتے تھے اور ان کا ذکر پورے ادب احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ .اس حوالے سے ایک سفاکانہ واقعہ بھی پیش آیا کہ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب ان کی تصنیف منصہ شہود پرآئی تو بعض تعصب کے مارے بدخواہوں نے امام پر قاتلانہ حملہ کردیا، جس میں آپ زخمی ہونے، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ انہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ مقام شہادت سے سرفراز ہوئے اور فلسطین کے شہر ’’رام اللہ میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوئے اوروہیں پر آسودہ خاک ہوئے۔
امام نسائی کی احادیث کا مجموعہ ’’السنن‘‘ بنیادی طور پر فقہی الاحکام اور شرعی مسائل کو بھر طور پر اپنے اندرسمیٹے ہوئے تھا تاہم اس میں معاملات ِمعاشرت، اخلاقیات اور ذکرواذکار کا بیان بھی نمایاں تھا اور اس کے ساتھ ہی اس میں اسلامی قوانین سے متعلق احادیث بھی شامل کی گئیں تھیں.۔
امام نسائی نے اپنی ’’سنن‘‘ کو دو حصوں میں مرتب کیا’’السنن الصغری‘‘ اور’’السنن الکبری‘‘ ، ’’ الکبری‘‘ کی صورت میں جو احادیث تھیں ان کا تعلق فقہی مسائل اور اسلامی احکام سے تھا، راویوں کی پرکھ اور احادیث کی کی صحت کا خصوصی دھیان رکھا گیا، تاہم کچھ ضعیف احادیث جانچ پڑتال کے ساتھ شامل کی گئیں۔’’السنن کبری‘‘ گیارہ ہزار احادیث کا مجموعہ ہے۔ ’’السنن الصغری‘‘ یہ مجموعہ پانچ ہزار سات احادیث پر مشتمل تھا، نکاح، طلاق، جہاد اوراخلاقیات کے علاوہ بھی کچھ موضوعات پر مشتمل احدیث اس میں شامل تھیں۔
امام نسائی رحمت اللہ علیہ اپنے سخت اصولوں کی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم کے بعد سب سب سے مستند محدث مانے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا احادیث کی صحت کے حوالے سے رویہ بہت سخت تھا۔ آپ کا مجموعہ احادیث فقہ، شریعت اور اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ امام احمد بن شعیب اہل سنت کے نزدیک ایک جلیل القدر محدث اور فقیہا مانے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 915عیسوی میں ہوا۔ بعض علماے امت نے ان کے بارے یہ کہنے سے بھی گریز نہ کیا کہ ’’ان کا شیعیت کی طرف زیادہ رجحان تھا‘‘ مگر اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
امام سے متعلق بہت سارے علماء و فقہا نے انتہائی حسن ظن کا اظہار فرمایا۔مثلاً امام تیمیہ رحمہ اللہ نے کہاکہ ’’ امام نسائینہ صرف محدث بلکہ فقیہ بھی تھے‘‘ اسی طرح امام حجرعسقلانی نے کہا ’’ امام نسائی ثقہ اور کمال درجے کے حافظ الحدیث تھے‘‘ امام دار قطنیؒ انہی ایک انتہائی معتبر محدث حدیث قرار دیتے ہیں۔ امام نووی نے بھی ان کی فنی مہارتوں پرانہیں خراج تحسین پیش کیا۔ امام ذہبی ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’امام نسائی شیخ الاسلام ہین اور ان کی سنن صحیحین میں بخری ؒاور امام مسلمؒکے بعد سب سے زیادہ مستند ہے‘‘۔
اما م نسائی رحمت اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے کہ آپ فقط محدث اور فقیہا ہی نہیں مجتہد بھی تھے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اللہ علیہ رضی اللہ کے ساتھ اور ان
پڑھیں:
عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
اسلام ٹائمز: علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔ تحریر: سید عدنان زیدی
امریکہ اور جولانی کے باہمی تعاون سے عراق کے خلاف ایک نیا اور خطرناک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ شام کے الحسکہ صوبے میں واقع الہول کیمپ میں موجود تقریباً 20 ہزار تربیت یافتہ داعشی دہشت گردوں کو عراق منتقل کرنے کی تیاریاں زیرِ عمل ہیں اور یہ منصوبہ محض عسکری حرکت نہیں، بلکہ سیاسی انتشار، انتخابی مداخلت اور علاقائی تسلط کے لیے ایک سازش ہے۔ لیکن یہ سلسلہ صرف عراق تک محدود نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک اور اہم نکتہ سامنے آرہا ہے: حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کی امریکی کوششیں اور اس کے نتیجے میں لبنان کی داخلی اور علاقائی پالیسی میں پیدا ہونے والا شدید تناؤ۔ الہول کیمپ میں مقیم شدت پسندوں کی منتقلی کا مقصد واضح ہے: عراق میں خوف و ہراس پھیلانا، تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل مرجعیت اور مزاحمتی بلاک کا اثر کم کیا جا سکے۔
امریکہ کے پالیسی ساز اپنے حامی پروکسیز کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو عوامی رائے کو تقسیم کرے اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوسکے۔ یہ ایک گہرا اور خطرناک جال ہے، جس میں عوامی جان و مال اور سیاسی آزادی دونوں داؤ پر ہیں۔ اس خطے میں جب بھی کسی طاقت نے مزاحمتی تنظیموں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تو اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور جوابی ردِعمل سامنے آیا۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن کی جانب سے حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات اور دباؤ میں اضافہ ہوا۔۔۔ مگر لبنان کے اعلیٰ سرکاری حلقوں نے اس خیال کو محض بعید بلکہ ناممکن قرار دیا ہے۔ لبنان کے صدر نے سرکاری طور پر واضح کیا کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ملک کی سیاسی حقیقت اور دفاعی ضرورت کے تناظر میں ممکن نہیں۔ صدر کا مؤقف ہے کہ حزبِ اللہ لبنان کی قومی حقیقت کا حصہ ہے اور اسے ختم کرنے یا غیر فعال کرنے کے مطالبات لبنان کی سالمیت اور عوامی امن کے خلاف جائیں گے۔
واشنگٹن نے لبنان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک اور راستہ اپنایا۔۔۔ کہا گیا کہ اگر حزبِ اللہ غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل کے ساتھ تعاون یا سیاسی دباؤ کے ذریعے لبنان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح دھمکیاں لبنان کے سیاسی استحکام کو مزید خطرے میں ڈالتی ہیں اور خطے میں جنگ کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ ایسی بلیک میلنگ سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ طاقتیں علاقائی معاملات کو حل کرنے کے بجائے دھمکی اور جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ حالانکہ یہ طریقہ کار نہ تو پائیدار امن لائے گا، نہ ہی عوامی بھلائی کا ضامن بنے گا۔ قریبِ مشرق کی متعدد صحافتی رپورٹس میں بھی اس بات کی تصدیق ملتی ہے کہ حزبِ اللہ نے اپنی دفاعی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بڑی سطح پر تیاری کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے متعدد رپورٹس میں حزبِ اللہ کی عسکری تیاریوں، نئے اسٹرائیک صلاحیتوں اور دفاعی منصوبہ بندی کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔۔۔ جو ظاہر کرتی ہیں کہ لبنان کی مزاحمتی قوتیں کسی بھی بیرونی دباؤ کے جواب میں مضبوطی سے قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔
یہ رپورٹس ان دھمکیوں کے پیشِ نظر اہم پیغام دیتی ہیں: حزبِ اللہ اپنی عوامی حمایت اور علاقائی تجربے کی بنیاد پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ دفاعی اقدامات کر رہی ہے اور اس میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عراق میں ایک ایسا سیاسی توازن قائم رہے، جو امریکی مفادات کے مطابق ہو۔ اسی لیے الہول کے جنگجوؤں کی منتقلی، سکیورٹی صورتحال میں ردوبدل اور معلوماتی آپریشنز۔۔۔ سب ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ قومی انتخابات سے قبل خوف و دہشت پھیلانے کا مقصد ووٹروں کی سرِ حراستی صورتحال پیدا کرنا ہے، تاکہ عوامی مزاحمتی اور مرجعیت پسند جماعتوں کی سیاسی قوت کمزور پڑ جائے۔ یہ وہی کلاسِک طریقہ ہے، جس کے ذریعے بیرونی قوتیں اندرونی تقاضوں کو متاثر کرکے اپنے سیناریو نافذ کرواتی ہیں۔
موجودہ حالات واضح کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر چلنے والی پالیسیوں کے پیچھے اکثر سیاستِ تسلط کام کرتی ہے۔ عراق میں داعش کی واپسی جیسی کہانیاں، لبنان میں حزبِ اللہ کے خلاف دباؤ اور یمن میں القاعدہ کو استعمال کرنے کی کوششیں۔۔۔۔ یہ سب ایک مربوط تصویر پیش کرتی ہیں: وہی پرانا جال، نئے حربے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تجربات نے بارہا دکھایا ہے کہ طاقت کے ذریعے امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک علاقائی اقوام اپنی خود مختاری، سیاسی وفاق اور عوامی امن کے لیے متحد منصوبہ بندی نہیں کریں گی، تب تک بیرونی طاقتیں اپنی سفارتی اور عسکری حکمتِ عملیاں جاری رکھیں گی۔ لبنان کا صدر جب کہتا ہے کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، وہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے۔۔۔
وہ حقیقت جو واشنگٹن سمجھنے سے قاصر ہے: خطے کی مزاحمتی قوتیں عوامی حمایت اور تاریخی پس منظر کی حامل ہیں، انہیں زباں سے نہیں، پالیسی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔