گلگت، بلتستان، مائننگ لیز لے کر کام نہ کرنے والی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اجلاس میں 2017ء تا 2025ء تک لیز لے کر کام نہ کرنیوالی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنیکا فیصلہ کیا گیا، ابتدائی مرحلے میں 5 لیز کے لائسنس منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ محکمہ منرل اینڈ مائننگ گلگت بلتستان کی مائنیز کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دیامر، استور، نگر، گلگت اور ضلع غذر میں مائینگ لیزز پر تفصیلی بحث ہوئی۔ اجلاس میں 2017ء تا 2025ء تک لیز لے کر کام نہ کرنیوالی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنیکا فیصلہ کیا گیا، ابتدائی مرحلے میں 5 لیز کے لائسنس منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا گیا ہے، حکومت نے جن کمپنیوں کو مائننگ لیز دی ہیں، قانون کے مطابق متعلقہ کمپنیاں کام کریں، صرف لیز کی حد تک لیز لینے والی تمام کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر کے باضابطہ قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ڈائریکٹر معدنیات احمد خان نے واضح احکامات جاری کر دیے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ منرل اینڈ مائننگ کے ایڈیشنل سیکرٹری و ڈائریکٹر معدنیات کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں ڈپٹی سیکرٹری قانون، سٹیلمنٹ اور ڈی ڈی منرل شریک ہوئے۔ اجلاس میں گلگت، دیامر، استور، ہنزہ اور ضلع غذر کے لیز کیسز زیر بحث آئے۔ اجلاس میں 2017ء تا 2025ء تک کے پرانے کیسز جن میں تقریبا 80 لیزز پر بحث ہوئی، کمیٹی نے ان میں سے دیگر کے لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کی جبکہ دیگر کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی جائے گی، ابتدائی مرحلے میں 5 لیز کو منسوخ کر کے قانونی کارروائی کرنے پر غور شروع کیا گیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے لائسنس منسوخ کرنے کے لائسنس منسوخ کر کمپنیوں کے اجلاس میں
پڑھیں:
سندھ کے کسانوں کا جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ کے سیلاب متاثرہ کسانوں نے کہا ہے کہ وہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں زمینیں، فصلیں اور روزگار کھو بیٹھے، اور اب وہ جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی مقدمہ دائر کرنے جا رہے ہیں۔
کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور ہائیڈلبرگ سیمنٹ کمپنی کو باضابطہ قانونی نوٹس بھجوا دیا گیا ہے۔ نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ اگر کسانوں کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں جرمن عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔ کسانوں کا مؤقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کاربن اخراج میں بڑا حصہ ڈالنے والی بڑی کمپنیاں ہی اس تباہی کی ذمہ دار ہیں، اس لیے انہیں نقصان کی ادائیگی بھی کرنی چاہیے۔
کسانوں نے کہا کہ وہ خود ماحولیات کی بربادی میں سب سے کم حصہ دار ہیں لیکن نقصان سب سے زیادہ انہیں اٹھانا پڑا ہے۔ چاول اور گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں، زمینیں برباد ہوئیں، اور تخمینے کے مطابق صرف سندھ کے ان متاثرہ کسانوں کو 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا ہے جس کا ازالہ وہ ان کمپنیاں سے چاہتے ہیں۔ ادھر جرمن کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ملنے والے قانونی نوٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس نے 2022 میں پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثر ملک قرار دیا تھا۔ اس سال کی بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، 1،700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے اور اقتصادی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ سندھ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بعض اضلاع تقریباً ایک سال تک پانی میں ڈوبے رہے۔