آئی ایم ایف اور ایک ارب ڈالر کی ماحولیاتی فنڈنگ
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد نے پاکستان کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر کی ماحولیاتی فنڈنگ پر تبادلہ خیال شروع کردیاہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر اس وفد سے ا سٹرکچرل امور پر گفتگو کی جائے گی۔
معاصر انگریزی اخبارکی رپورٹ کے مطابق اس بات چیت کے بعد، آئندہ ہفتے کے اوائل میں آئی ایم ایف کے حکام پاکستان کی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے ، اور جائزہ رپورٹ کی بنیاد پر ہی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو فراہم کئے جانے والے جاری 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت حکام کی کارکردگی کے بارے میں فیصلہ کیاجائے گا۔
آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم مختلف وزارتوں جن میں منصوبہ بندی، خزانہ، موسمیاتی تبدیلی، پیٹرولیم اور آبی وسائل سے متعلق وزارتیں شامل ہیں اور ان کے ساتھ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسیوں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔
آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہیر بنیسی نے تصدیق کی ہے کہ یہ ملاقاتیں 3ہفتے تک جاری رہیں گی۔ پروگرام کے مطابق آئی ایم ایف کی عملے کی ایک ٹیم مارچ کے وسط میں پاکستان کا دورہ کرے گی، جہاں وہ پاکستان کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پہلے جائزے اور حکام کی جانب سے لچک اور پائیداری سہولت (آر ایس ایف) انتظامات کے تحت امداد کی درخواست پر تبادلہ خیال کرے گی۔
پاکستان نے گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایم ایف سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کو مزید ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بڑھائے جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موسمیاتی لچک اور موافقت کی اصلاحات میں ہر سال جی ڈی پی کا ایک فیصد (موجودہ سال کے تخمینے کے مطابق ایک کھرب 24 ارب روپے سے زائد) سرمایہ کاری کرے۔
آر ایس ایف کے تحت، فنڈنگ ان ممالک کو فراہم کی جاتی ہے جو موسمیاتی تباہ کاریوں کے خلاف لچک پیدا کرنے کے لیے اصلاحات کا عہد کرتے ہیں اور اس حوالے سے واضح پروگرام پیش کرتے ہیں۔آئی ایم ایف کے تحت یہ فنڈنگ 30 سال کی مدت کیلئے ہوتی ہے جس میں 10 سال کی رعایتی مدت بھی شامل ہوتی ہے، اور یہ فنڈز ای ایف ایف کی شرائط سے کم شرح سود پر دیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مشورے کے مطابق پاکستان خاص طور پر وزارت منصوبہ بندی اور خزانہ نے ماحولیات سے متعلق پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (سی-پیما) کے لیے دستاویزات تیار کی ہیں،۔ اس کے علاوہ، پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے انتخاب کے لیے نئے معیار بھی وضع کیے گئے ہیں، جن میں ماحولیات سے متعلق اور ماحولیاتی لچک والے منصوبے شامل ہوں گے۔سی پیما ایکشن پلان کے مطابق، عوامی سرمایہ کاری کی کارکردگی میں اضافے سے لچک میں مزید بہتری آئے گی۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی لچک بڑھانے کے لیے درکار اضافی سرمایہ کاری قرضوں کی سطح کو معتدل طور پر بلند کرے گی، جو مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
آئی ایم ایف کافی عرصے سے اس بات پر زور دیتا رہاہے کہ پاکستان کے معاشی ڈھانچے میں ساختی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا معیار زندگی کئی دہائیوں سے گر رہا ہے۔ پاکستان کی آمدنی جمود کا شکار ہے اور غربت کی شرح بلند رہی ہے، ساتھ ہی سماجی ترقی کے اشاریے بھی اپنے ہم عصروں سے پیچھے ہیں۔پاکستان کو عالمی اوسط سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات مزید بڑھیں گے۔
گزشتہ دہائیوں میں موسمیاتی آفات کی وجہ سے پاکستان کو 29 ارب 30 کروڑ ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، جس کے نتیجے میں ترقیاتی فوائد سست ہو گئے۔ 2022 کے سیلاب سے ایک ہزار 700 افراد ہلاک ہوئے، اور 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، جس کی وجہ سے معاشی نقصانات مالی سال 22 کے جی ڈی پی کے 4.
آئی ایم ایف کا کہناہے کہ موسمیاتی لچک کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری قدرتی آفات کے اثرات کو تقریباً ایک تہائی تک کم کر سکتی ہے، اور پاکستان کو تیزی سے اپنی سابقہ جی ڈی پی کی سطح پر واپس لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا وفدپاکستانی حکام سے بات چیت کے دوران اطلاعات کے مطابق ماحولیاتی استحکام کی فنڈنگ کا جائزہ لے گا، جس کے لیے رقم آئی ایم ایف کے ‘ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبیلٹی ٹرسٹ’ کے تحت فراہم کی جائے گی۔ یہ فنڈنگ طویل المدتی رعایتی قرضوں کی صورت میں 2022 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ ماحولیاتی اخراجات جیسے موافقت اور ماحول دوست توانائی پر منتقلی کو سپورٹ کیا جا سکے۔وفاقی وزارت خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے بتایا کہ پاکستان نے اس ٹرسٹ کے تحت ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ کے لیے گذشتہ سال اکتوبر میں باضابطہ درخواست دی تھی تاکہ ملک کی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔
پروگرام کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے فنڈز کی فراہمی کے بارے میں فیصلے کے بعد آئی ایم ایف کا وفد اگلے ہفتے کے اوائل میں پاکستان کی پالیسیوں کا جائزہ لے گا۔ اس میں 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پہلا معاشی جائزہ بھی شامل ہوگا۔وفاقی وزیر کی اطلاع کے مطابق قرض پروگرام کے تحت ششماہی جائزے کا مشن مارچ میں پاکستان آئے گا، پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق تمام امور درست ہیں۔ ایک مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منفی ہوا ہے، جبکہ7 مہینے کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مثبت ہے۔آئی ایم ایف کے مشورے کے مطابق پاکستان خاص طور پر وزارت منصوبہ بندی اور خزانہ نے ماحولیات سے متعلق پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسیسمنٹ (سی-پیما) کے لیے دستاویزات تیار کی ہیں۔
اس کے علاوہ، پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے انتخاب کے لیے نئے معیار بھی وضع کیے گئے ہیں، جن میں ماحولیات سے متعلق اور ماحولیاتی لچک والے منصوبے شامل ہوں گے۔آئی ایم ایف کی ٹیکنیکل ٹیم کا کہنا ہے کہ ماحول کی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے اس فنڈنگ کے تحت ان ممالک کو سپورٹ فراہم کی جاتی ہے جو ماحولیاتی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ معیار کی اصلاحات کا عہد کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی معاشی صورت حال اور ضروریات کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں پاکستان کی معیشت فی الوقت بحالی کے ایک طویل عمل سے گزر رہی ہے، جسے ارباب حکومت کے مطابق گذشتہ سال کے آخر میں حاصل کردہ 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی کے تحت نسبتاً استحکام حاصل ہوا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے یہ دعویٰ کیاہے کہ پاکستان ‘بوم اینڈ بسٹ سائیکل’ میں دوبارہ نہیں جائے گا اورا سٹرکچرل اصلاحات کے ذریعے معیشت کا ڈی این اے ٹھیک کرنا ہوگا۔ انھوں نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک اور وفد مارچ کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گا تاکہ اس فنڈنگ کے پہلے جائزے کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس دوران، آئی ایم ایف کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہیر بنیجی کے مطابق، اسلام آباد میں ملاقاتیں جاری رہیں گی۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ دنوں کرپشن کے خاتمے، منی لانڈرنگ کی روک تھام اور انصاف کی فراہمی کے لیے حکومت پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی تھی اور یہ تسلیم کیاتھاکہ حکومت پاکستان اصلاحات کے لیے پُرعزم ہے اور اس لیے آئی ایم ایف بھرپور تعاون کے لیے تیار ہے۔ مشکل معاشی حالات میں آئی ایم ایف کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ سنجیدہ لیا ہے۔
جہاں تک آئی ایم ایف کی ہدایت پر ٹیکس وصولی کا تعلق ہے تو اگرچہ اب تک کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران ٹیکس وصولی کا اہداف حاصل نہیں ہو سکے اور نجکاری کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے، تاہم چاروں صوبوں اور وفاق کے پاس کیش موجود ہے اور وفاقی پرائمری بجٹ سرپلس ہے۔ اس کے علاوہ زراعت پر ٹیکس کی شرط بھی پوری کر دی گئی ہے۔
گورننس کے حوالے سے آئی ایم ایف مطمئن ہے کیونکہ گردشی قرضوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ مالی سال کے پہلے6 ماہ میں گردشی قرضے 2 کھرب 39 ارب روپے ہیں، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں کم ہیں۔ اس کی وجہ سرکاری اداروں میں آزاد بورڈز کی تشکیل ہے، تاہم سندھ کے دو اداروں، ہیسکو اور سیپکو میں آزاد بورڈ اب تک تعینات نہیں ہو سکے ہیں۔ ان دونوں اداروں کا خسارہ 82 ارب روپے کے قریب ہے۔
حکومت کی جانب سے ہر قیمت پر ٹیکس وصولی کی پالیسی نے رئیل اسٹیٹ کی صنعت کو بحران سے دوچار کردیاہے، اس صنعت کے نمائندہ لیڈروں نے وزیراعظم سے بار بار ایمنسٹی کی درخواست کی ہے لیکن وزیراعظم نے آئی ایم ایف کو جواز بنا کر اس کی مخالفت کی، اب رئیل اسٹیٹ کے نمائندے اگلے مہینے آئی ایم ایف سے ملاقات کرنے جا رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں سے اگرچہ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں کیونکہ ابھی تک ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے ہیں لیکن اس سیکٹر کے مسائل کے حل سے متعلق حوصلہ افزا یقین دہانیاں متوقع ہیں۔ جہاں تک ٹیکس وصولی کے اہداف کے حصول کی بات ہے تو اس کے لیے معیشت کو ڈیجیٹل کرنے پر کام جاری ہے۔
ا سٹیٹ بینک نے ‘راست’ کے ذریعے ادائیگیوں کو آسان اور شفاف بنانے کے لیے نئے اصول متعارف کرائے ہیں۔ ایف بی آر کو بھی فعال کرنے پر غور کیاجارہاہے، کیونکہ نادرا کی مدد سے حاصل ہونے والے 50 لاکھ لوگوں کے اثاثوں اور آمدنی کا ڈیٹا ابھی تک کام میں نہیں لایا جا سکا ہے۔ حکومت کو ایف بی آر کے اس معاملے پر فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن بوجوہ اب تک ایسا نہیں کیاجاسکا ہے ۔
ہر قیمت پر ٹیکس وصولی سے متعلق آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی سامنے آ رہے ہیں جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر کی گروتھ منفی 2فیصد رہی، جس کی وجہ سے بیروزگاری 6 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس بوجھ میں کمی لانے کی درخواست کرنی چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ماحولیات سے متعلق آئی ایم ایف کے آئی ایم ایف کی آئی ایم ایف کا سرمایہ کاری میں پاکستان ارب ڈالر کی پاکستان کی پاکستان کو ٹیکس وصولی پاکستان کے ایف ایف کی وجہ سے مالی سال کے مطابق پر ٹیکس کے پہلے نہیں ہو ایک ارب ہے اور کے لیے کے تحت سال کے
پڑھیں:
’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں بدھ کو اپنی مشاورتی فیصلے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت کے صدر یوجی ایواساوا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ’’گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی واضح طور پر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اور ان کے اثرات سرحدوں سے پار جا پہنچتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ’’ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید اور وجودی خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔" ایواساوا کے مطابق ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی قومی ماحولیاتی حکمت عملیوں میں بلند ترین اہداف مقرر کریں۔
پیسیفک آئی لینڈز اسٹوڈنٹس فائٹنگ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر وشال پرساد، نے اس فیصلے کو بحر الکاہل کے عوام کے لیے ’’زندگی کی امید‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،’’آج دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک نے تاریخ رقم کی۔ آئی سی جے کا فیصلہ ہمیں اس دنیا کے قریب لے آیا ہے جہاں حکومتیں اب اپنی قانونی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔
‘‘اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ میری رابنسن نے اس فیصلے کو ’’انسانیت کے لیے ایک مؤثر قانونی ہتھیار‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،'’’یہ بحرالکاہل اور دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک قانونی موڑ جو ہمیں زیادہ محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
‘‘ بین الاقوامی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہعدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔
ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔وانواتو کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی رالف ریگنوانو نے عدالت کے اس فیصلے کو ''ماحولیاتی اقدام کے لیے سنگ میل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی تبدیلی کو براہ راست انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
‘‘عدالت نے گزشتہ دسمبر میں تقریباً 100 ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کے بیانات سنے۔ انٹیگوا اور باربودا کے وزیر اعظم گاسٹن براؤن نے عدالت کو بتایا کہ ''بے لگام اخراج‘‘ کے باعث ان کے جزیرے کی سرزمین سمندر کی نذر ہو رہی ہے۔
اس دوران، امریکہ جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے مؤقف اختیار کیا کہ 2015ء کا پیرس معاہدہ پہلے ہی ریاستوں پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی قانونی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ماحولیاتی قانون کی ماہر جوئے چودھری نے کہا،’’پیرس معاہدہ اہم ہے، لیکن یہ واحد قانونی طریقہ نہیں۔ مختلف قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ وسیع ہے۔‘‘
’کھوکھلے وعدوں کے دور کا اختتام‘وانواتو نے عدالت سے یہ بھی وضاحت مانگی کہ اگر کوئی ملک اخراج کو روکنے کی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر چکے ہیں، انہیں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
چودھری نے کہا، ’’اب تک کے اخراج سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔‘‘
غریب ممالک، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں، طویل عرصے سے امیر ممالک سے نقصانات کا ازالہ مانگتے رہے ہیں۔
عدالت نے انتباہ دیا کہ ’’عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی نقصان اور تباہی میں اضافہ کرے گا۔" اگر ریاستیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو متاثرہ ممالک قانونی چارہ جوئی کے ذریعے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں ’’نقصان و تلافی فنڈ‘‘ قائم کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 700 ملین ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق 2030 تک نقصانات سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
چودھری نے کہا،’’یہ معاملہ درحقیقت جواب دہی کا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ خالی وعدوں کا دور ختم ہونا چاہیے۔‘‘
فیصلے کے ممکنہ اثراتآئی سی جے کا یہ مشاورتی فیصلہ ان تین فیصلوں میں سے ایک ہے جو حالیہ مہینوں میں ملکوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں۔
اسی ماہ انٹر-امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک رائے دی کہ ممالک شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ماحول اور آب و ہوا کو محفوظ بنائیں۔
اگرچہ مشاورتی آراء ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اخلاقی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مقدمات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اب تک 60 ممالک میں تقریباً 3,000 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
یہ آئی سی جی کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ماہر جوانا سیٹزر نے کہا ’’یہ فیصلہ ایک اہم موڑ ہے۔ عدالت نے جو قانونی تشریح پیش کی ہے، وہ عالمی، قومی عدالتوں اور وکلا کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔‘‘
چودھری نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نومبر میں برازیل میں ہونے والی ماحولیاتی مذاکرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ اب کچھ معاملات پر قانونی وضاحت موجود ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک واضح قانونی خاکہ دے گا جس کی مدد سے متاثرہ ممالک اور عوام آلودگی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
لوسیا شولٹن نے ہیگ، میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔