ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کل پاکستان کا دورہ کرینگے
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کل پاکستان کا دورہ کریں گے۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان جمعرات کو اسلام آباد پہنچیں گے، وہ اسلام آباد کا ایک روزہ دورہ کر رہے ہیں۔دورہ پاکستان کے دوران شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کو نشان پاکستان سے نوازا جائے گا، شیخ خالد بن محمد کو نشان پاکستان سے نوازنے کے لئے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کے وزیراعظم کے ہمراہ مفاہمتی یاداشت پر دستخط بھی متوقع ہیں، ایک روزہ دورے میں شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
ابوظہبی کے ولی عہد شیخ خالد ابوظہبی کی سپریم کونسل برائے مالیاتی و اقتصادی امور کے رکن ہیں، وہ ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی ADNOC کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔
شہزادہ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان ابو ظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بھی رکن ہیں، وہ بطور سربراہ نیشنل سکیورٹی اور ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق مارچ 2023 میں انہیں ابو ظہبی کا ولی عہد اور ابو ظہبی ایگزیکٹو کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، پاکستان میں کاروبار، تجارت اور سرمایہ کاری لانے کے تناظر میں شیخ خالد بن محمد کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
صارم قتل کیس میں زیرِ حراست تمام افراد شہر نہ چھوڑنے کی شرط پر رہا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
کیا جنرل فیض نو مئی کے ٹرائل کا سامنا کرینگے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) فوج کی جانب سے 9؍ مئی کے فسادات میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے مبینہ کردار کی تحقیقات کے اعلان کے کئی ماہ بعد بھی ان کیخلاف اس واقعے کے حوالے سے اب تک کوئی باضابطہ الزام عائد نہیں کیا گیا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سیکورٹی عہدیدار نے بتایا کہ جنرل فیض کے کیس میں کچھ نیا نہیں ہے، تاہم، جیسے ہی کچھ ملا تو ہم آپ سے شیئر ضرور کریں گے۔ گزشتہ سال پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ جنرل فیض پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ریاست کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ تاہم بعض وفاقی وزراء کی جانب سے ان کا نام 9؍ مئی کے واقعات سے جوڑنے کے باوجود اس معاملے میں ان پر باضابطہ طور پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ جنرل فیض کے وکیل میاں علی اشفاق نے دی نیوز کو بتایا کہ 9؍ مئی کے واقعات میں کوئی ایسا ریکارڈ یا شہادت موجود نہیں جو ان کے موکل کا کردار ثابت کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جتنا بھی ریکارڈ دیکھا یا پڑھا گیا ہے، اس میں ایسا کچھ بھی نہیں جو جنرل فیض کا اس واقعے سے تعلق ظاہر کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوتا بھی، تو وہ اُسی صورت سامنے آ سکتا ہے جب باضابطہ فردِ جرم عائد کی جائے۔ ایسی کوئی فردِ جرم فی الوقت موجود ہی نہیں۔ آئی ایس پی آر پہلے ہی یہ بیان دے چکی ہے کہ جنرل فیض کا مبینہ کردار 9؍ مئی کے واقعات میں ’’سیاسی مفادات’’ کے ساتھ علیحدہ سے زیرِ تفتیش ہے، لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود اب تک اس کی کوئی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔ قبل ازیں رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جنرل فیض کے سیاسی شخصیات سے وسیع روابط تھے، جن میں تحریک انصاف کے رہنما بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے سیاسی معاملات میں رہنمائی کرنے کی تردید کی تھی۔ ان کے مطابق کچھ ملاقاتیں سماجی نوعیت کی تھیں، جبکہ بعض ذاتی نوعیت کی درخواستوں پر مبنی تھیں، جیسے ملازمتوں یا پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے سفارش کرنا۔ فوج کی جانب سے ان کیخلاف ابتدائی الزامات میں آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کا ناجائز استعمال اور ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین نکات شامل تھے۔ دوسری جانب، وفاقی وزراء مسلسل جنرل فیض اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے درمیان مبینہ تعلق کی نشاندہی کر رہے ہیں، لیکن یہاں بھی کوئی ٹھوس شواہد عوام کے سامنے نہیں لائے گئے۔ جہاں ایک جانب عدالتوں میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف کیسز کی سماعت جاری ہے اور متعدد کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں، وہیں دوسری طرف سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کیخلاف 9؍ مئی سے متعلق کسی فرد جرم کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس ضمن میں الزامات غیر مصدقہ اور نا پختہ لگتے ہیں۔
انصار عباسی