2050 تک دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات 68 فیصد ہوجائے گی ، ڈبلیو ایچ او انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے خبردار کیا ہے کہ 2050 تک دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات میں 68 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سالانہ 13 لاکھ لوگ کس وجہ سے مر رہے ہیں؟ عالمی ادارہ صحت کا انکشاف
بین الاقوامی ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (آئی اے آر سی ) کی اور جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی ایجنسی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی خصوصی شاخ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق 2050 تک دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے کیسز میں 38 فیصد اضافہ ہوگا جس سے اموات کی شرح 68 فی صد ہوجائے گی۔
نیچر میڈیسن’ میں شائع ہونے والے نتائج میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو دنیا میں چھاتی کے کینسر کے 3.
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ بوجھ غیر متناسب طور پر محسوس کیا جائے گا کیونکہ وہاں کینسر کی تشخیص کا پتہ لگانے، علاج اور دیکھ بھال تک رسائی محدود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت: چین نے اسمارٹ فونز پر بریسٹ کینسر اسکریننگ آسان بنادیآئی اے آر سی کی سائنسدان اور رپورٹ کی شریک مصنفہ ڈاکٹر جوآن کم نے کہا کہ دنیا بھر میں 4 خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے ایک موت کا شکار ہوتی ہے اور اب ان اعدادوشمار میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ چھاتی کا کینسر دنیا بھر میں خواتین میں سب سے زیادہ عام کینسر ہے اور مجموعی طور پر دوسرا سب سے عام کینسر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2022 میں دنیا میں مجموعی طور پر خواتین میں 2.3 ملین نئےچھاتی کے کینسر کے کیسز کی تشخیص ہوئی، جن میں 6لاکھ 70ہزار اموات ہوئیں۔
سب سے زیادہ چھاتی کے کیسز کی شرح آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، شمالی امریکا اور شمالی یورپ میں ریکارڈ کی گئی جبکہ سب سے کم شرح جنوبی وسطی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں پائی گئی، دریں اثنا، سب سے زیادہ اموات کی شرح مغربی افریقہ میں رپورٹ کی گئی، جہاں صحت کی دیکھ بھال کی محدود رسائی ہے ۔
چھاتی کے کینسر کی بقا اور معاشی ترقی کے درمیان تعلق بالکل واضح ہے کہ ترقی یافتہ مما لک میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص شدہ خواتین میں سے 83 فیصد رہتی ہیں جبکہ ترقی پذیر مما لک میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص کرنے والی نصف سے زیادہ خواتین اس سے مر جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
واضح رہے ڈبلیو ایچ او نے 2021 میں گلوبل بریسٹ کینسر انیشی ایٹو کا آغاز کیا، جس کا مقصد چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات کی شرح میں سالانہ 2.5 فیصد کمی لانا ہے، جس سے 2040 تک 2.5 ملین اموات کو روکا جا سکتا ہے، اس اقدام کی توجہ جلد تشخیص، بروقت تشخیص اور معیاری علاج تک رسائی پر مرکوز ہے۔
آئی اے آر سی کی کینسر سرویلنس برانچ کی ڈپٹی ہیڈ ڈاکٹر ازابیل سورجوماترم نے کم آمدنی والے علاقوں میں بہتر پالیسیاں چلانے کے لیے اعلیٰ معیار کے کینسر ڈیٹا کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی تشخیص میں مسلسل پیش رفت اور علاج تک بہتر رسائی چھاتی کے کینسر میں عالمی فرق کو دور کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک چھاتی کے کینسر سے ہونے والی تکلیف اور موت کو کم کرنے کا ہدف حاصل کرلیں۔
رپورٹ میں صحت کے مضبوط نظام کی اہمیت، چھاتی کے کینسر کی اسکریننگ اور علاج کے لیے فنڈز میں اضافہ، اور کفایت شعاری سے بچاؤ کی پالیسیوں کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔اس حوالے سے کیسز اور اموات میں متوقع اضافے کے ساتھ، بین الاقوامی برادری کو ایک فوری چیلنج کا سامنا ہے جس کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ لاکھوں جانیں کسی ایسی بیماری کی وجہ سے ضائع نہ ہوں جو تیزی سے قابل علاج اور قابل علاج ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ برسٹ کینسر ڈبلیو ایچ او عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ برسٹ کینسر ڈبلیو ایچ او عالمی ادارہ صحت عالمی ادارہ صحت کینسر کی تشخیص دنیا بھر میں ڈبلیو ایچ او خواتین میں سے زیادہ گیا ہے کی شرح کے لیے
پڑھیں:
ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایشیا اور بحرالکاہل خطے کی معاشی ترقی کی شرح بارے پیش گوئی میں کمی کردی ،رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے ترقی پذیر ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے لیے رواں سال اور آئندہ سال کی معاشی ترقی کی پیش گوئی کے درجے میں کمی کردی، ان تخمینوں میں کمی کی بنیادی وجہ امریکا کی بلند ٹیرف پالیسیاں، عالمی تجارت کی غیر یقینی صورتحال اور ملکی سطح پر کمزور طلب ہے۔ بینک نے ایشیائی ترقیاتی بارے اپنے حالیہ جائزے میں کہا ہے کہ علاقائی معیشتیں رواں سال (2025)4.7 فیصد کی شرح سے ترقی کریں گی جو اپریل کی پیش گوئی کے مقابلے میں 0.2 فیصد کم ہے، آئندہ سال کے لیے ترقی کی پیش گوئی 4.7 فیصد سے کم ہو کر 4.6 فیصد کر دی گئی ۔اے ڈی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا کی ٹیرف پالیسیوں اور تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تو ترقی پذیر ایشیا اور بحرالکاہل کی معاشی ترقی کے امکانات مزید متاثر ہو سکتے ہیں، دیگر خطرات میں عالمی سطح پر تنازعات اور جغرافیائی کشیدگیاں شامل ہیں جو سپلائی چین کو متاثر اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہیں، اس کے علاوہ چین میں پراپرٹی مارکیٹ توقع سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔(جاری ہے)
بینک کے چیف ماہر اقتصادیات البرٹ پارک نے کہاکہ ایشیا اور پیسیفک نے اس سال بیرونی طور پر مشکل حالات کا سامنا کیا ،تاہم غیر یقینی صورتحال اور خطرات میں اضافے کے باعث اقتصادی آئوٹ لک میں کمی ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ خطے کی معیشتوں کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور کھلی تجارت و علاقائی انضمام کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سرمایہ کاری، روزگار اور ترقی کو سہارا دیا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ چین جو خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے، کے لیے ترقی کی پیش گوئی رواں سال کیلئے 4.7 فیصد اور آئندہ سال 4.3 فیصد کی سطح پر برقرار رکھی گئی ہے ۔ اس کی حکومتی پالیسیوں کی مدد سے کھپت اور صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملنے کی توقع ہے جس سے پراپرٹی مارکیٹ کی کمزوری اور برآمدات میں کمی کا ازالہ ہوسکے گا۔جائزے میں بھارت کی معاشی ترقی کی شرح رواں سال 6.5 فیصد اور آئندہ سال 6.7 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو اپریل کی پیش گوئی سے بالترتیب 0.2 اور 0.1 فیصد پوائنٹس کم ہے ،کیونکہ تجارتی غیر یقینی صورتحال اور امریکی ٹیرف کا برآمدات اور سرمایہ کاری پر اثر پڑے گا،جنوب مشرقی ایشیا کی معیشتیں تجارتی حالات کی خرابی اور غیر یقینی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ اے ڈی بی نے اس خطے کی ترقی کی شرح رواں سال 4.2 فیصد اور آئندہ سال 4.3 فیصد رہنے کی پیشکوئی کی ہے جو اپریل کی پیش گوئیوں سے تقریباً 0.5 فیصد پوائنٹس کم ہے ،تاہم قفقاز اور وسطی ایشیا کی معیشتوں کی ترقی کی پیش گوئی میں بہتری آئی ہے۔ تیل کی پیداوار میں متوقع اضافے کے باعث اس خطے کے لیے ترقی کی پیش گوئی 0.1 فیصد پوائنٹس بڑھا کر رواں سال 5.5 فیصد اور آئندہ سال کیلئے 5.1 فیصد کر دی گئی ہے۔اے ڈی بی کی رپورٹ میں ترقی پذیر ایشیا اور پیسیفک میں افراطِ زر میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے کیونکہ تیل کی قیمتوں میں نرمی اور زرعی پیداوار میں بہتری سے خوراک کی قیمتوں پر دباؤ کم ہو رہا ہے، افراط زر کی شرح رواں سال 2.0 فیصد اور آئندہ سال 2.1 فیصد متوقع ہے جو اپریل کی پیش گوئی سے بالترتیب 2.3 فیصد اور 2.2 فیصد کم ہے۔\932