City 42:
2025-04-26@02:33:16 GMT

شکارپور،ڈاکوؤں کا باپ بیٹے پر تشدد، وڈیو وائرل

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

عبدل جبار ابڑو: شکارپور کے علاقے سے ایک ماہ قبل ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے باپ بیٹے کی تشدد بھری وڈیو وائرل۔ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکو مغویوں کو ڈنڈوں سے تشدد کر رہے ہیں۔اہلِ خانہ نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔

 رپورٹ کے مطابق شکارپور  تھانہ کوٹ شاہو سے ایک ماہ قبل اغوا کئے گئے باپ بیٹے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی،  وڈیو میں مغویوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنتے دیکھا جاسکتا ہے۔ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکو مغویوں کو ڈنڈوں سے تشدد کر رہے ہیں، وڈیو میں بے بس باپ بیٹا مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ ڈاکوؤں کی جانب سے مغویوں پر وحشیانہ تشدد کے مناظر نے شہریوں میں غم و غصہ پھیلا دیا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر؛ پنجاب حکومت کی جلد قانون سازی کی یقین دہانی

 واضح رہے کہ ایک ماہ قبل شکارپور کے تھانہ کوٹ شاہو کی حدود سے نامعلوم مسلح افراد نے باپ بیٹے کو اغوا کر لیا تھا۔ اہلِ خانہ نے ان کی بازیابی کے لیے متعلقہ حکام سے بارہا اپیل کی، مگر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

 مغویوں کے اہلِ خانہ نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔  انہوں نے کہا ہے کہ اگر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو مغویوں کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ورثا کا مزید کہنا ہے کہ اگر حکام پہلے ہی کارروائی کرتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ حکومت سندھ اور پولیس حکام  فوری ایکشن لینے  تاکہ مغویوں کو بحفاظت بازیاب کرایا جا سکے۔

لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ, بری ہونے والے افراد کا نام کریکٹر سرٹیفکیٹ پر ظاہر نہیں ہوگا

   پولیس کا کہنا ہے کہ جلد ہی ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اوڈ برادری کے نوجوان کامورو اور اس کے بیٹے انصاف اوڈ کو جلد از جلد بازیاب کرا لیا جائے گا۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: مغویوں کو باپ بیٹے

پڑھیں:

گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل

ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

متعلقہ مضامین

  • کینالز ایشو پر احتجاج کرنے والے تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں، سعید غنی
  • لاہور : ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او ڈاکوؤں کی ساتھی نکلی
  • پہلگام حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ، مودی حکومت ذمہ دار ہے: کانگریس
  • کراچی: ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 14 سالہ حافظ قرآن جاں بحق، شہری کی فائرنگ سے ڈاکو ہلاک
  • لاہور: ڈاکوؤں کا شہریوں سے لوٹ مار کا نیا طریقہ واردات
  • جماعت اسلامی نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 138 گاڑیاں خریدنے کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکردی
  • ولادیمیر پیوٹن کے مبینہ ’خفیہ بیٹے‘ کی تصویر لیک، روس میں ہلچل مچ گئی
  • گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • مریم نواز کے بیٹے جنید کی شادی کی ناکام کیوں ہوئی؟ شادی میں فوٹوگرافی کرنے والے عرفان احسن نے تقریب کا آنکھوں دیکھا حال سنا دیا