Daily Ausaf:
2025-11-04@05:46:54 GMT

محدث، فقیہ اور مجتہد امام ابو دائودؒ

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

سلیمان بن الاشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الازدی السجستانی کی ولادت موجودہ ایران و افغانستان کے سرحدی علاقے سجستان میں 202 ھ میں ہوئی،علم کا ذوق و شوق لئے پیدا ہوئے اور کم عمری ہی میں علم حدیث کے حصول کے لئے ملکوں ملکوں سفر کیا، عراق، خراسان، شام، مصر اور حجاز کے جید علمائے کرام سے کسب فیض سے مشام جاں کو معطرو معنبر کیا۔امام اسحاق بن رواہا، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینہ، امام ابو ثوراور امام احمد بن حنبل جیسے اساتذہ سے حدیث و فقہ کے علوم میں بھرپور استفادہ کیا اور جرح و تعدیل اور رجال کی پرکھ میں غیر معمولی مہارت کے حامل ٹھہرے اسی لئے امام ذہبی نے ان کے بارے میں کہاکہ’’ ابودائود ثفہ امام متقن یعنی تحقیق وجستجو رکھنے والے، ٹھوس علمی مہارت رکھنے والے ایسے امام تھے جو اپنے کام کوخوش اسلوبی سے انجام دینے پر یقین رکھتے تھے‘‘ ابن حبان کی ان کے بارے میں یہ رائے تھی کہ’’ ابودائود حدیث میں اتنے متبحر تھے کہ ان کے درجے کا کوئی دوسرا نہیں تھا‘‘
خطیب بغدادی نے شہادت دی کہ’’ حدیث میں وہ وقت کے امام تھے اور انہوں نے فقہ الحدیث میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں‘‘
امام ابودائود کی سب سے معروف تصنیف سنن ابودائود ہے، جس کا شمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔ انہوں نے پانچ لاکھ احدیث جمع کیں جن میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث کو اپنی سنن میں جگہ عطا فرمائی، اسے فقہ و حدیث کا خوبصورت امتزاج کہا جاتا ہے، جو فقہاء کے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے، امام ابودائود کی دیگر کتب کے علاوہ ایک اہم کتاب ’’مسائل الامام احمد‘‘ ہے جو امام احمد بن حنبل سے کئے گئے سوالات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں امام ابودائود نے امام احمد بن حنبل سے عبادات، معاملات اور دیگر شرعی مسائل سے متعلق استفسار کیا۔
نماز کے اوقات، وضو، طہارت، زکوٰۃ، حج، روزہ، نکاح و طلاق اور دیگر فقہی اور حدیثی موضوعات کے حوالے سے اپنے استاذ سے سوالات کے جوابات دریافت فرمائے۔اسی طرح امام ابو دائود نے ’’کتاب الزہد‘‘ میں تزکیہ نفس، زہد اور احادیث سے متعلق تفصیل بیان کی۔ امام نے’’المراسیل‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر فرمائی،جو حدیث کے ایک مخصوص شعبے یعنی مرسل احادیث سے متعلق ہے یعنی ایسی احادیث جن کی سند میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ ہو بلکہ تابعین پاک نبی ﷺسے براہ راست روایت کریں۔ اس بارے امام نے مرسل حدیث کی قبولیت کے اصولوں متعلق بتایاہے کہ ’’کن حالات میں انہیں قابل حجت سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
اس کتاب میں بعض محدثین کے اقوال بھی شامل کئے گئے ہیں جن میں مرسل حدیث کے قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ان کے نظریات بیان کے گئے ہیں،امام ابودائود نے اپنی زندگی کے زیادہ تر سال بصرہ میں گزارے جہان امام کو علمی قیادت کا منصب حاصل رہا۔خلیفہ المعتضد باللہ امام کی بہت عزت و تکریم کیا کرتے اور انہوں نے امام سے التجا کی کہ فقہی مسائل میں اختلافی پہلوئوں کو حل کرنے سے متعلق اختصار پرمشتمل کتاب تیار کردیں۔اسی درخواست پر امام نے’’کتاب السنن‘‘ مرتب کی، جس میں مختلف فقہی مکاتب فکر کی آرا کی تفصیلی وضاحت کی۔ امام ابو دائود بنیادی طور پر اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔لیکن محسوس یہ کیا جاتا تھا کہ ان کا جھکائوفقہ حنبلی کی جانب ہے۔امام ابودائود کا شمار عظیم محدثین میںہوتا ہے، ان کی تصنیف’’سنن ابودائود‘‘ فقہ و حدیث کے طلباء کے لئے آج بھی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس سے تحقیق و اجتہاد کا کام بھی لیا جاتا ہے،جہاں تک فقہ حنبلی سے متاثر ہونے کا تعلق ہے اس امر کا اندازہ ان کے متعدد فتاوی اور آرا ء کی مشابہت سے صاف معلوم ہوتا ہے، امام تیمیہ نے بھی امام ابو دائود کو فقہ حنبلی کے قریب قرار فرمایا ہے،تاہم ان کے بارے میں یہ تاثر بھی پایا جاتاہے کہ وہ کسی ایک فقہ کے مقلد نہیںتھے بلکہ اجتہادی مہارت رکھنے کی وجہ سے زیادہ تر حدیث کی روشنی میں فقہی مسائل کا حل تلاش کرتے تھے، ان کا بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فقہ و حدیث کو یکجا کر کے علمی امور کو نبھایا اور ان کا انتقال 275ھ بصرہ میں ہوا اور وہیں پر آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انہوں نے حدیث کے

پڑھیں:

کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی

اسلام ٹائمز: محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔ واقعہ نگار: آغا زمانی

سکردو کی روح پرور فضا میں اس دن ایک علمی و روحانی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ جامعۃ النجف کے وسیع و پرنور ہال میں اہلِ علم و دانش، طلاب، اساتذہ، ادبا اور محققین کا ایک خوبصورت اجتماع برپا تھا۔ ہر چہرے پر تجسس اور خوشی کی جھلک تھی، کیونکہ آج یہاں اس کتاب کی رونمائی ہونی تھی، جس نے دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں اپنا پیغام پھیلایا۔ اس کتاب کا نام ہے ''غدیر کا قرآنی تصور، تفاسیر اہلسنت کی روشنی میں۔'' یہ کتاب جو حجۃ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی فکری و قرآنی جستجو کا نچوڑ ہے، اپنی معنویت اور عالمگیر پیغام کی بدولت ایک تاریخی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے انجام دیا ہے، جس نے اسے اردو داں طبقے کے لیے ایک فکری ضیافت بنا دیا ہے۔

تقریب کا آغاز جامعۃ النجف کے گروہِ تلاوت نے نہایت خوش الحانی سے کلامِ ربانی کی تلاوت سے کیا۔ تلاوت کے بعد مشہور نعت خواں، فرزندِ قائد بلتستان (علامہ شیخ غلام محمد غروی رح) مولوی غلام رضا نے اپنی پراثر آواز میں بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے تو فضا درود و صلوات سے گونج اٹھی۔ پھر بلتستان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صابر نے کتاب پر اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کے لہجے میں ایک محقق کا شعور اور مومن کا یقین جھلک رہا تھا۔ کہنے لگے: یہ کتاب محض ایک علمی تصنیف نہیں بلکہ انسانِ مومن کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ غدیر سے دوری دراصل نظامِ حیات سے دوری ہے اور پاکیزہ زندگی کا راز غدیر سے تمسک میں پوشیدہ ہے۔

اس کے بعد حجۃ الاسلام سید سجاد اطہر موسوی نے نہایت خوبصورت منظوم کلام کے ذریعے کتاب کے موضوع پر اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ ان کے اشعار نے فضا کو وجد و کیف سے بھر دیا۔ سابق سینیئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی علمی کاوش قوم کے فکری سرمایہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے بعد معروف ادیب اور تاریخ دان محمد حسن حسرت نے کتاب کے فکری پہلوؤں پر مدلل تبصرہ کیا اور اس کی تحقیقی گہرائی کو سراہا۔

اسی سلسلے میں معروف محقق محمد یوسف حسین آبادی نے واقعۂ غدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: غدیر کسی مخصوص دور کا پیغام نہیں بلکہ ہر زمانے کے انسان کے لیے ہدایت کا منشور ہے۔ تقریب کے روحانی اوج پر حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید محمد علی شاہ الموسوی فلسفی نے کتاب پر عالمانہ اور فلسفیانہ نقد پیش کیا۔ ان کی گفتگو علم و عرفان کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوئی۔

جامعۃ النجف کے استاد، برجستہ محقق اور معروف عالم دین شیخ سجاد حسین مفتی نے کتاب پر نہایت دقیق، عمیق اور فکری تجزیہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو نے سامعین کو مسحور کر دیا اور ہال درود سے گونج اٹھا۔ یہ تقریب نہ صرف ایک کتاب کی رونمائی تھی بلکہ غدیر کے ابدی پیغام کی تجدیدِ عہد بھی تھی۔ علم و عشق کے سنگم پر سجی یہ محفل اس بات کا اعلان تھی کہ غدیر کی روشنی آج بھی انسانیت کو راستہ دکھا رہی ہے۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نمائندے محمد کاظم سلیم نے نہایت جامع اور مدلل انداز میں مختصر مگر پراثر خطاب کیا۔ ان کے چند الفاظ نے گویا محفل کے فکری رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا۔ اس کے بعد محفل کے صدر، نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو اور صدر انجمنِ امامیہ بلتستان، حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید باقر الحسینی نے خطبۂ صدارت پیش کیا۔ ان کا لہجہ محبت، علم اور تقدیس سے لبریز تھا۔ انہوں نے فرمایا: علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی یہ تصنیف ایک علمی معجزہ ہے، جو قرآن اور ولایت کے رشتے کو واضح کرتی ہے۔ مترجم علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے اسے جس فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ آغا باقر الحسینی نے مؤلف، مترجم، تمام مبصرین اور شرکائے محفل کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ان کی دعا کے ساتھ فضا میں سکون اور نورانیت کی کیفیت پیدا ہوگئی۔

پھر اس علمی جشن کے مرکزی کردار، کتاب کے مصنف علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی ڈائس پر آئے۔ ان کے چہرے پر عاجزی اور شکر گزاری کی جھلک نمایاں تھی۔ مدبرانہ اور پرعزم لہجے میں فرمایا: اس کتاب کا مقصد صرف ایک علمی خدمت نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی ذمہ داری کا اعلان ہے۔ آٹھ ارب انسانوں تک پیغامِ غدیر پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ کتاب اسی مشن کا ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ انہوں نے تمام حاضرینِ محفل، علماء، دانشوروں اور منتظمین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ پیغام جلد پوری دنیا میں عام ہوگا۔

اس کے بعد مترجمِ کتاب حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے پرشوق اور بصیرت افروز انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کی گفتگو میں علم کا وقار اور ایمان کا جوش ایک ساتھ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن اعلانِ ولایت کے فوراً بعد فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں۔ افسوس کہ ہم اس ذمہ داری میں کوتاہی کرتے آئے ہیں۔ اگر ہر غدیری فرد صرف تین افراد تک یہ پیغام پہنچاتا تو آج پوری دنیا غدیری ہوتی۔ ان کا یہ جملہ ہال میں گونجتا رہا۔ حاضرین نے تائید میں سر ہلائے۔ انہوں نے مزید کہا: آج میڈیا کے دور میں پیغامِ غدیر کی ترویج نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔ اس کتاب کو کروڑوں کی تعداد میں شائع ہونا چاہیئے، تاکہ دنیا کے ہر کونے تک یہ نور پہنچے۔

تقریب کی نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے۔ ان کی سنجیدہ آواز اور متوازن گفتگو نے پورے پروگرام کو حسنِ ترتیب بخشا۔ محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔

متعلقہ مضامین

  • کتاب ہدایت
  • بُک شیلف
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد