اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مختلف مکاتب فکر اور جماعتوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے گی اور عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کے لیے مہم چلائی جائے گی۔ شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنا دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جس سے کسی صورت غفلت نہیں برتی جا سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی مسلم لیگ ہاؤس میں ملی یکجہتی کونسل سندھ کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت کونسل کے صدر اسد اللہ بھٹو نے کی۔ اجلاس میں جنرل سیکریٹری سندھ قاضی احمد نورانی،مرکزی مسلم لیگ کراچی کے صدر احمد ندیم اعوان، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر اعجاز مصطفیٰ، مجلس وحدت مسلمین کراچی کے صدر علامہ صادق جعفری، شیعہ علماء کونسل کے صوبائی جنرل سیکریٹری علامہ جعفر علی سبحانی، فلسطین فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر صابرابومریم، محمد حسین محنتی، ثقلین اسحاق، سید حسین کاظم، قاری محمد زاہد سمیت مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران فلسطین میں جاری مظالم اور عوامی مشکلات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ رہنماؤں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کے لیے نہایت اہم ہے اور اس پر خاموشی اختیار کرنا ظلم کی حمایت کے مترادف ہے۔ اجلاس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر عالمی سطح پر مؤثر آواز بلند کرے اور فلسطینی عوام کے حق میں اپنا واضح مؤقف پیش کرے۔

اسداللہ بھٹو نے کہا کہ اس وقت فلسطین کا مسئلہ نہ صرف اہم بلکہ حساس ہے، فلسطین میں جاری مظالم کے باوجودعالمی برادری کی جانب سے کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بدترین اسرائیلی مظالم کے باوجود غزہ میں مزاحمتی قوت کو ختم نہیں کیا جاسکا، حکومت پاکستان فلسطین کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنائے۔ انہوں نے رمضان المبارک کے دوران میڈیا سے درخواست کی کہ غیر اخلاقی امور سے پرہیز کیا جائے۔ اجلاس میں رمضان المبارک کے دوران مہنگائی، لوڈشیڈنگ، اور دیگر عوامی مسائل پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ رمضان میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے اور خصوصاً مساجد اور نمازیوں کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

اجلاس کے دوران اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اقدامات کرے تاکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی بحران جیسے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔ مرکزی مسلم لیگ کراچی کے صدر احمد ندیم اعوان نے کہا کہ رمضان المبارک مقدس مہینہ ہے، آمد رمضان سے قبل شہر بھر کی بالخصوص مساجد کے اطراف صفائی کا اہتمام کیا جائے، حکومت مہنگائی پر قابوپائے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے فوری اقدامات کرے، اسی طرح رمضان المبارک میں سحر افطار کے اوقات میں بجلی و گیس لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔ قاضی احمد نورانی نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کی حمایت میں عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط کرے اور سفارتی سطح پر مؤثر حکمت عملی اپنائے۔ انہوں نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں کرنے اور شہر میں بڑھتی ٹریفک جام کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے مطالبات کیے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رمضان المبارک اجلاس میں نے کہا کہ کے دوران کیا جائے کے لیے کے صدر

پڑھیں:

طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-6

 

وجیہ احمد صدیقی

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی طور پر پیچیدہ اور کشیدہ رہے ہیں، جن کی جڑیں دیرینہ سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی مسائل میں ہیں۔ پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے متعدد بار افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی کی کوششوں کی مذمت کی اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تنازعے میں بھارت کا کردار بھی نہایت منفی اور پراثر ہے جو طالبان کو پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے اُکساتا ہے۔ مگر افغانستان کا قیام اور اس کا مستقبل اقتصادی و جغرافیائی حوالے سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے کیونکہ یہ ایک لینڈ لاک ملک ہے جسے سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان یا ایران کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

تاریخی تناظر یہ بتاتا ہے کہ سرحدی جھڑپیں اور ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ تنازع 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی ہے۔ افغانستان نے پاکستان کے مغربی سرحدی معاہدے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ حالانکہ اس معاہدے پر افغان حکومت کے دستخط ہیں۔ اس سرحد کو لے کر کئی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں اور چھوٹے اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ 1949-50 میں افغان فوجیوں اور قبائلی ملیشیاؤں کی طرف سے بلوچستان میں مبینہ حملوں کے واقعات سامنے آئے، جس پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔ اس کے بعد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی متعدد بار کشیدگی بڑھی اور سرحد پر لڑائیاں ہوئیں۔ 2020 کی دہائی میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024 اور 2025 میں بار بار سرحد پر فائرنگ، بمباری اور عسکری جھڑپوں کی خبریں آتی رہیں، جن میں دونوں ملکوں کے فوجی اہلکار اور غیر فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ان جھڑپوں کا پس منظر مخصوص دہشت گرد گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی کا افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھنا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے کئی بار جنگ بندی کی کوشش کی لیکن دیرپا امن قائم نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ لیکن ان جنگوں نے سوویت یونین سے لے کر امریکا کی مداخلت تک افغانستان کو ہی قبرستان بنا دیا ہے۔ تو طالبان کیا افغانستان کو مسلسل قبرستان ہی کی حیثیت دیے رکھنا چاہتے ہیں یا وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی کام کریں گے یا محض اپنے سارے پڑوسیوں سے جھگڑے کرتے رہیں گے؟ ان کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ان کا سرحدی یا پانی کا تنازع نہ ہو۔ طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے لیے ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی جمہوری حکومت آئے جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ طالبان کی موجودگی میں افغان عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان کا واضح موقف ہے کہ سرحد پار دہشت گردی انتہائی ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنائیں۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ادارے مسلسل سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہے ہیں تاکہ سرزمین کی حفاظت کی جا سکے۔ پاکستان کی یہ پالیسی ملکی سلامتی کے تناظر میں بالکل جواز رکھتی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق بھی مستحسن ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہزاروں شہری اور فورسز کے اہلکار جان سے گئے۔ یہ حملے نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا احتجاج اور دفاعی اقدامات اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ناگزیر اور جائز ہیں۔

بھارت کا کردار خطے میں امن کے قیام کے بجائے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے چاہے وہ غیر ریاستی دہشت گرد ہوں یا بھارت کی طرح ریاستی دہشت گردی۔ طالبان کو پاکستان مخالف اُکسانا افغانستان کے تنازعے میں بھارت کا کردار منفی اور خطرناک ہے۔ بھارت طالبان سے قطع تعلق کے باوجود گزشتہ کچھ عرصے میں انہیں پاکستان کے خلاف اُکسانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت طالبان کو مالی اور عسکری حمایت فراہم کر کے انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے براہِ راست یا بالواسطہ مدد دے رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور خطے میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے کوئی سرحد نہیں ہے، اس لیے وہ افغانستان کو سمندر تک رسائی دینے والے راستوں کو مشکلات میں ڈال کر افغان معیشت کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی سیاست کو ’’بی جمالو‘‘ کے کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی جو اپنی ملکیت میں آنے والے دوسرے ملکوں کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کے مسائل مزید گہرے اور پیچیدہ ہو رہے ہیں جبکہ یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے خلاف سازش ہے۔

افغانستان کا مفاد پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے اور سمندر تک رسائی کے لیے اسے پاکستان یا ایران کے راستے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو افغانستان کو سمندری راستوں تک بہت آسانی سے رسائی فراہم کر سکتا ہے، لہٰذا افغانستان کے مفادات میں شامل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھے۔ دوستی کی راہ اپنانے سے افغانستان نہ صرف اپنی معیشت بہتر بنا سکتا ہے بلکہ سرحدی تحفظ میں بھی بہتری آسکتی ہے۔ دہشت گردی کی حمایت چھوڑ کر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون کرے تو دونوں ممالک کی سلامتی میں بہتری آئے گی اور خطے میں امن قائم ہو گا۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغان طالبان سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ سرحدی مسائل کو حل اور امن قائم کیا جا سکے، مگر بھارت کے اثرات اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔

اکتوبر 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی پاکستانی فوجی اور طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے افغان علاقوں میں دہشت گرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جبکہ افغان طالبان نے بھی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے۔ ان جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مختصر مدت کے لیے جنگ بندی ہوئی لیکن یہ مکمل طور پر برقرار نہ رہ سکی۔ یہ بات واضح ہے کہ دونوں طرف سے دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم کیے بغیر دیرپا امن مشکل ہے۔ اس لیے خطے کے تمام فریقوں کو امن کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ جنگ نہ بڑھے اور عام شہری محفوظ رہیں۔

پاکستان کا موقف منطقی، درست اور تحفظ پر مبنی ہے کہ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کو سرزمین پر پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ دوستی خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے، کیونکہ افغانستان کو سمندری راستہ پاکستان یا ایران کے ذریعے ملتا ہے۔ بھارت کی طالبان کو پاکستان مخالفت پر اُکسانا اور افغانستان میں مداخلت خطے میں عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے، جسے روکا جانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں اور امن کے لیے مذاکرات کی راہ اپنائی ہوئی ہے، امید ہے کہ افغانستان بھی اپنے مفادات کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے گا تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل آمد کیلئے ترکیے میں اجلاس، اسحاق ڈار شرکت کریں گے
  • نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کل استنبول کا دورہ کریں گے
  • قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
  • عرب اسلامک وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت، نائب وزیراعظم کل استبول روانہ ہوں گے
  • پاک افغان مذاکرات سے قبل اہم سفارتی سرگرمیاں، نائب وزیراعظم ترکی جائیں گے
  • اسحاق ڈار کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی بین الوزارتی کمیٹی کا اجلاس، سفارتی کارکردگی کا جائزہ
  • طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے، ہر حال میں اپنی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا دفاع کرے گا:ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا: ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان اور کینیڈا کے وزرائے خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ