القسام کمانڈر، مصنف اور ادیب عمار عبد الرحمن کو 27 سال بعد صیہونی جیل سے رہائی مل گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
القسام کے قیدی عمار الزبن کے پاس اسیری کے دور کی کئی تحریریں اور ناول ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزاحمتی سرگرمیوں کو ناول "الطريق إلى شارع يافا” (روڈ ٹو یافا) میں منفرد انداز میں بیان کیا۔ اسلام ٹائمز۔ حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے دوران مشہور فلسطینی ادیب، مصنف اور القسام کمانڈر کو 27 سال بعد اسرائیلی جیل سے رہائی مل گئی۔ صیہونی ریاست اور فلسطینی مزاحمت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت آج جمعرات ستائیس فروری کی صبح رہا ہونے والے سینکڑوں فلسطینیوں میں درجنوں ایسے فلسطینی بھی شامل ہیں جو برسوں سے صہیونی ریاست کی جیلوں میں پابند سلاسل تھے۔ ان میں ایک نام غرب اردن کے شمالی شہر نابلس سے تعلق رکھنے والے القسام کمانڈر مصنف، ادیب اور ایک سچے عاشق رسول ﷺ عمار الزبن کا بھی ہے۔ القسام کے رہنما عمار عبد الرحمن الزبن نے صہیونی ریاست کے زندانوں میں زندگی کے 27 قیمتی سال گذارے۔ بالآخر مزاحمت ان کی زنجیروں کو توڑنے اور جیلوں کی دیواروں کو تباہ کرنے کے وعدے کے تحت انہیں رہا کرنے میں کامیاب رہی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قیدی الزبن کو گیارہ جنوری 1998ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 26 بار عمر قید اور 25 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں مناہ یہودا اور بن یہودا کی کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا۔ شاتمین رسول ﷺ اور غاصب صہیونیوں کے خلاف القسام بریگیڈز نے یہ کارروائیاں 1997ء میں مقبوضہ بیت المقدس میں کی تھیں۔ عمار 1975ء میں نابلس میں پیدا ہوئے۔ وہ شادی شدہ اور چار بچوں بشار النصر، بیسان، مہند اور صلاح الدین کے والد ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ عمار کی والدہ کو 2004ء میں قابض جیلوں میں قیدیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال میں شرکت کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ قیدی عمار الزبن جیل کے اندر سب سے نمایاں مصنفین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابیں اور ناول لکھے جن میں سب سے اہم “عندما يزهر البرتقال” ہے جس نے عرب ثقافتی ایوارڈ جیتا۔ اس کے علاوہ "خلف الخطوط” اور "الزمرہ” ان کے مشہور ناولوں میں شامل ہیں۔
انہوں نے ان کے علاوہ بھی کئی مختصر کہانیاں اور ادبی اور سیاسی مضامین لکھے جنہیں عرب جرائد اور اخبارات میں شائع کیا جاتا رہا۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں فلسطینی عوام کی بہادری کے واقعات بیان کیے۔ ان کا ناول نگاری کا اپنا منفرد اسلوب ہے جس نے انہیں دیگر معاصر ادیبوں میں ممتاز کیا۔ ان کی تحریروں کے پیچھے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی بہادری اور فخر کی کہانی کو امر کرنا ہے۔القسام کے قیدی عمار الزبن کے پاس اسیری کے دور کی کئی تحریریں اور ناول ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزاحمتی سرگرمیوں کو ناول "الطريق إلى شارع يافا” (روڈ ٹو یافا) میں منفرد انداز میں بیان کیا۔ اس میں اس آباد کار کی کہانی بھی شامل ہے جس نے الخلیل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی مکروہ جسارت کی تھی۔ انہوں نے لکھا کی کس طرح ان کے قائم کردہ القسام سیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں "محنی یہودا” کے پڑوس میں دو بہادرانہ کارروائیوں کے ساتھ توہین کا جواب دیتے ہوئے شاتم رسول کو جھنم واصل کیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمار الزبن انہوں نے
پڑھیں:
صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ز قلم:خدیجہ طیب
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے قطر میں حماس کے رہنماؤں کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہاں انہیں “محفوظ پناہ گاہ” ملی ہوئی تھی۔
انہوں نے خبردار کیا:“میں قطر اور تمام اُن ممالک سے کہتا ہوں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں: یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو ہم کریں گے۔”
یہ نیتن یاہو کے الفاظ ہیں: انصاف کا مطالبہ، اور سب سے حیران کن بات یہ کہ، خود اپنے زمانے کے سب سے بڑے دہشت گرد کی جانب سے کیا جا رہا ہے!
اسرائیل کا قطر میں دوحہ پر حالیہ حملہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ وہ اب صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کوئی عام کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم پیغام تھا کہ جو بھی ہمارے راستے میں کھڑا ہوگا، اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں مذاکراتی اجلاس میں شریک تھی۔
قطر پر اسرائیلی حملہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ یہ محض ایک ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اُس خطے میں ہوا جہاں امریکا کی مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی بیس العدید ایئر بیس(Al Udeid Air Base) موجود ہے۔ ٹرمپ کا انجان بننا اور اسرائیل کا آگے بڑھنا، یہ سب مل کر ایک بڑی تصویر دکھاتے ہیں کہ دنیا کو ایک نئے عالمی نظام(New World Order)کیطرف دھکیلا جا رہا ہے؟ جس میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں ہو گی اور باقی دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔
دنیا کے بیشتر طاقتور یہودی طبقات کا تعلق اشکنازی یہودیوں سے ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو زیادہ تر یورپ (خصوصاً مشرقی یورپ اور روس) سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ اسرائیلی ریاست میں سیاسی و فوجی غلبہ رکھتا ہے۔ صیہونی تحریک (Zionism) کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی ریاست میں ڈھالنے کا سہرا بھی زیادہ تر انہی کے سر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشکنازی یہودی دراصل چاہتے کیا ہیں؟
سب سے پہلے ان کا مقصد ہے طاقت اور بالادستی۔ یہودی تاریخ میں صدیوں کی غلامی، بیدخلی اور جلاوطنی کے بعد اشکنازی یہودیوں نے یہ سوچ پختہ کر لی کہ انہیں ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں بلکہ خود دوسروں کو اپنا محکوم بنائیں۔ اسی سوچ نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو جنم دیا، لیکن یہ ان کا آخری ہدف نہیں۔
دوسرا مقصد ہے گریٹر اسرائیل کا قیام۔ اشکنازی یہودی اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ ان کا ’’وعدہ شدہ ملک‘‘ (promised land) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین محض پہلا قدم ہے، اصل خواب اس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام، لبنان، عراق، مصر کے حصے، حتیٰ کہ سعودی عرب کے شمالی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسی توسیع پسندی نے پورے خطے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ یعنی فلسطین کے بعد بھی یہ رکے گا نہیں۔ یہ جنگ ہماری دہلیز تک آ کر ہی رہےگی۔
آج اگر قطر نشانہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔ کیا عرب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج ہم نے صفیں نہ باندھیں، تو آنے والے کل میں یہی آگ ہمیں بھی لپیٹ لے گی۔
امت کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کی کمی ہے۔ ایک طرف 2 ارب مسلمان ہیں، دوسری طرف 15 ملین اسرائیلی۔ لیکن طاقت کس کے پاس ہے؟ جس کے پاس اتحاد اور نظم ہے۔ قرآن ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران 103)۔ لیکن ہم نے رسی چھوڑ دی اور تفرقے کو گلے لگا لیا۔ یہی ہماری شکست کی اصل جڑ ہے۔
نیا عالمی نظام جسے صیہونی اشکنازی اور ان کے عالمی اتحادی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے:ایک ایسی دنیا جہاں طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں ہو۔ فیصلے چند خفیہ ایجنڈے رکھنے والے گروہ کریں۔ قوموں کی آزادی محض دکھاوا ہو۔جس کے پاس زیادہ طاقت ہوگی، وہی بغیر کسی معاہدے کو توڑے، ظلم کرنے کا اختیار رکھے گا۔اور انسانوں کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دیا جائے جہاں مزاحمت کا کوئی راستہ نہ بچے۔
اب نہیں تو کب؟
سوال یہی ہے — اب نہیں تو کب؟
اگر آج بھی امت نے غفلت برتی، اگر آج بھی حکمران ذاتی مفاد کے اسیر رہے، اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آج قطر ہے، کل شاید پاکستان، ایران، یا کوئی اور عرب ملک۔
یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم بیدار ہوں، یا پھر تاریخ ہمیں مٹتے ہوئے دیکھے۔ا