صدر ٹرمپ کا افغانستان کا بگرام ایئربیس واپس لینے کا عزم‘کابل یوکرین سے مختلف میدان ہے.ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 فروری ۔2025 ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اگر جوبائیڈن کی جگہ ہوتے تو افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول کبھی نہ چھوڑتے اور وہاں کم از کم پانچ ہزار امریکی اہلکاروں پر مشتمل دستہ تعینات رکھتے کابینہ اجلاس کے دوران ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے بگرام ایئربیس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کا شمار دنیا کی بڑی ایئر بیسز میں ہوتا ہے جہاں مضبوط کنکریٹ رن وے پر کسی بھی قسم کے طیارے اتر سکتے ہیں تاہم امریکہ نے اس کا کنٹرول کھو دیا اور یہ ایئر بیس اب چین کے زیر اثر آ چکا ہے ماضی میں چین بگرام ایئربیس پر موجودگی کے امریکی الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے.
(جاری ہے)
صدر ٹرمپ کے مطابق وہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول افغانستان کے لیے نہیں بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے برقرار رکھنا چاہتے ہیں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے بگرام ایئر بیس پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑ دیا وہاں کئی نئے ٹرک اور دیگر فوجی سازو سامان تھا جو واپس لیا جائے گا افغانستان کے صوبہ پروان میں واقع یہ ایئربیس دارالحکومت کابل سے محض ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے کنٹرول کے دوران امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل گئی تھیں اور بگرام ایئر بیس کا کنٹرول طالبان حکومت نے سنبھال لیا تھا. امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس سے متعلق حالیہ بیان پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا تاہم ماضی میں طالبان قیادت افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کو ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی رہی ہے طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدے دار متعدد مواقع پر واضح کر چکے ہیں کہ بگرام سمیت کسی بھی فوجی اہمیت کی حامل تنصیب پر غیر ملکی کنٹرول یا مداخلت قابل قبول نہیں مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان سے امریکی اسلحے کی واپسی کا مطالبہ یا بگرام ایئربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش درحقیقت ایک نئی سفارتی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں بھی یوکرین جیسی حکمتِ عملی اپنانا چاہتے ہیں جہاں جنگ کے دوران امریکہ نے یوکرین کو 350 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی وہیں ٹرمپ نے یوکرین سے 500 ارب ڈالر کی نایاب معدنیات کی ڈیل کا عندیہ دیا ہے اورتوقع کی جارہی ہے کہ یوکرینی صدر آج واشنگٹن میں ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دستخط کر دیں گے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نظریں افغانستان کے معدنی وسائل پر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تین ٹریلین ڈالر مالیت کے نایاب معدنی وسائل ہیںحالیہ عرصے میں چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے اعلانات کیے ہیں لہٰذا صدر ٹرمپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کا میدان، چین کے لیے خالی نہ چھوڑا جائے. رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہبگرام ایئربیس کی تعمیر کا آغاز 1960 کی دہائی کے آخر میں روسی تعاون سے ہوا تھا 1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے یہاں اپنے جنگی طیارے، بشمول مگ 21 اور مگ 17 تعینات کر دیے تھے 1979 میں افغانستان پر حملے کے بعد اس ایئربیس کا مکمل کنٹرول سوویت فورسز نے سنبھال لیا تھا سال 2001 میں امریکی حملے کے بعد یہ ایئر بیس اگست 2021 تک امریکی کنٹرول میں رہی جس کے بعد طالبان نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا یہ ایئربیس ہمیشہ سے ایک عسکری تنصیب کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اور اسے کبھی بھی سویلین مقاصد کے لیے نہیں کھولا گیااس وقت بگرام ایئربیس کے تمام داخلی دروازے بند ہیں اور اس کے گرد بلند کنکریٹ کی دیواریں موجود ہیں جن پر خاردار تاریں‘ خفیہ کیمرے‘ مورچے اور سرچ ٹاور نصب ہیں جبکہ میڈیا کی رسائی بھی مکمل طور پر محدود کر دی گئی ہے تاہم 15 اگست کو طالبان نے یہاں ایک تقریب منعقد کی جس میں وہ امریکی فوجی ساز و سامان نمائش کے لیے رکھا گیا جو انخلا کے بعد پیچھے رہ گیا تھا. بگرام کا فوی اڈا خطے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کابل کے قریب ایک میدانی علاقے میں واقع اور پہاڑوں سے گھرا یہ ایئربیس امریکہ کے لیے چین، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک پر نظر رکھنے کا ایک کلیدی مقام ثابت ہو سکتا ہے افغان امور کے ماہرین کے مطابق طالبان قیادت کے نظریات اور ان کی اب تک کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ امریکہ کو بگرام ایئربیس یا افغانستان میں کوئی اور مقام اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے دیں ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے برسوں تک اپنی افرادی قوت کی ذہن سازی امریکی مخالفت پر کی ہے ایسے میں اگر وہ خود ہی امریکیوں کو کسی طرح کی سہولت دینے پر راضی ہوتے ہیں تو انہیں شدید اندرونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے طالبان قیادت کے لیے یہ فیصلہ نظریاتی اور سیاسی طور پر پیچیدہ ہوگا کیوں کہ اس سے ان کی ساکھ اور داخلی اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بگرام ایئربیس افغانستان میں طالبان حکومت بگرام ایئر کا کنٹرول ایئر بیس کے مطابق یہ ایئر کا کہنا کے بعد کے لیے بیس کا
پڑھیں:
افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-7
اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مشترکہ نگرانی اور توثیق کے نظام کے قیام کے بعد اب یہ ذمہ داری کابل پر عائد ہوگی کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہفتے کے روز استنبول میں شروع ہوا تھا، تاہم کابل سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر اسلام آباد کے دیرینہ تحفظات مذاکرات میں بڑا تنازعہ بنے رہے، جس کے باعث بات چیت میں تعطل پیدا ہوا۔بعد ازاں ترکی اور قطر نے دوسری بار ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں مذاکراتی عمل کو اس وقت بچا لیا، جب پاکستان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ بات چیت ’ ناکام’ ہوگئی ہے اور اس کے مذاکرات کار وطن واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ان مذاکرات میں تین نکاتی سمجھوتہ طے پایا جنگ بندی کے تسلسل، امن کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور تصدیق کے ایک نظام کے قیام، اور معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سزاؤں پر اتفاق۔ اس نظام کی عملی تفصیلات 6 نومبر کو استنبول میں دونوں جانب کے سینئر نمائندوں کی ملاقات کے دوران طے کی جائیں گی۔نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات نے استنبول میں زیرِ بحث نگرانی کے نظام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ دنوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا اور مشترکہ نظام کے طریقہ کار پر بات چیت ہوگی۔انہوں نے کہا، ’ ذمے داری افغان حکومت پر ہے کیونکہ ان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اضافی فورم ہوگا جہاں شواہد فراہم کیے جائیں گے، اور افغان طالبان حکومت کو کارروائی کرنا ہوگی۔ اگر وہ کارروائی نہیں کرتے، تو انہیں سزا ملے گی۔’‘‘فتنہ الخوارج’’ کی اصطلاح ریاست کی جانب سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جبکہ بلوچستان میں سرگرم گروہوں کو ‘‘فتنہ الہندوستان’’ کہا گیا ہے تاکہ دہشت گردی اور عدم استحکام میں بھارت کے مبینہ کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ نظام قائم ہونے کے بعد افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہو تو کیا پاکستان افغان سرزمین پر جوابی کارروائی کرے گا، تو عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ یہ صورتحال پر منحصر ہوگا۔انہوں نے جواب دیا، ’ اگر صورتحال بہت سنگین ہوئی اور پاکستان کو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت جوابی کارروائی کا حق حاصل ہوا، تو فیصلہ حالات کے مطابق کیا جائے گا۔’انہوں نے مزید کہا، ’ جب یہ نظام قائم ہو جائے گا، مشترکہ تصدیق ہوگی اور شواہد سامنے آئیں گے، تو جو فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا، اسے سزا ملے گی۔ لیکن یہ حالات پر منحصر ہے۔ اب افغان طالبان کے پاس بہانے بنانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ چونکہ تیسرے فریق بھی شامل ہیں، انہیں کارروائی کرنا ہوگی۔’افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے مشتبہ عناصر کو پاکستان کے حوالے کرنے کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں عطاء اللہ تارڑ نے وضاحت کی کہ پاکستانی حکومت نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی اور سوال اٹھایا کہ افغان طالبان انتظامیہ مذاکرات کے بعد اس طرح کے بیانات کیوں دے رہی ہے۔انہوں نے کہا، ’ معاملہ واضح ہے: پاکستان نے پہلے ہی مطالبہ کیا تھا کہ جو دہشت گرد پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، انہیں کنٹرول یا گرفتار کیا جائے۔ تاہم افغان فریق کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور انہیں حوالے کر دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ نئے بیانات حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ ہم نے فوری طور پر سرحدی راستے سے حوالگی کی تجویز دی تھی یہ ہمارا دیرینہ مؤقف ہے۔ ’ میں نہیں جانتا کہ وہ ایسے بیانات دے کر صورتحال کو کیوں پیچیدہ بنا رہے ہیں۔’