پاکستان کے بڑے شہر آبادی کے تناسب سے ترقی کرنے میں ناکام ہیں. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 فروری ۔2025 )پاکستان میں لاہور اور کراچی جیسے شہر اپنی بڑی آبادی کو متناسب اقتصادی ترقی میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں پنجاب اربن یونٹ کے سابق چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر ناصر جاوید نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہاکہ وسائل کی بدانتظامی اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہمارے بڑے شہروں کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کوئی ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ فراہم کرنے کے بجائے ڈیموگرافک آفات میں تبدیل ہو گئی ہے پاکستان کی شہری آبادی میں پچھلے 75 سالوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور1951 سے 2025 تک یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے جو کہ کافی حد تک شہری کاری کے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ملک میںشہری آبادی کا تناسب 1951 میں 17.8 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 38.5 فیصد ہو گیا ہے کراچی اور لاہور بالترتیب 18 ملین اور 14 ملین کی آبادی کے ساتھ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں کی فہرست میں 12 ویں اور 27 ویں نمبر پر ہیں آکسفورڈ اکنامکس کے شائع کردہ گلوبل سٹیز انڈیکس میں کراچی 918ویں نمبر پر ہے جبکہ اسلام آباد اور لاہور بالترتیب 578ویں اور 878ویں نمبر پر ہیں 75 بلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ کراچی اور 40 بلین ڈالر کے ساتھ لاہور کا درجہ بہت کم ہے جب کہ نیویارک کے مقابلے میں 2500 بلین ڈالر کی جی ڈی پی ہے. ڈاکٹر ناصر جاوید نے کہا کہ تیز رفتار لیکن غیر منصوبہ بند توسیع نے منصوبہ بند اقتصادی مراکز کی بجائے غیر رسمی بستیوں کے ساتھ افراتفری کا شکار شہری پھیلا وکا باعث بنا ہے جس سے پہلے سے ہی کمزور سماجی و اقتصادی انفراسٹرکچر پر زیادہ سے زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے شہری منصوبہ بندی کے ماہر نے کہا کہ کمزور میونسپل گورننس اور وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان ناقص ہم آہنگی موثر شہری انتظام میں رکاوٹ ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں شہری مراکز کو اپنے حال پر چھوڑ کر دیہی مرکزی اقتصادی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں یہاں تک کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں قائم کردہ ترقیاتی اتھارٹیز بھی شہری ترقی میں شہروں کے کردار کو کوئی اہمیت دیے بغیر صرف میٹروپولیٹن شہروں میں زمین کے انتظام کے مسائل کے لیے ذمہ دار ہیں حال ہی میںپنجاب حکومت نے لاہور میں سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے تاکہ صوبائی میٹرو پولس کے کردار کو ترقی کے انجن کے طور پر بہتر بنایا جا سکے، لیکن یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے. انہوں نے کہاکہ ملک کی تاریخ کے گزشتہ 76 سالوں میں فلائی اوور اور انڈر پاسز کے ساتھ کار پر مبنی ٹرانسپورٹیشن سسٹم پر توجہ دی گئی ہے جو شہروں کو ناکارہ بناتا ہے جدید ترین میٹروبس سسٹم اور اورنج لائن میٹرو ٹرین لاہور کی صرف 10 سے 15 فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتی ہے جبکہ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے کاروباری تنظیموں کا خیال ہے کہ نقل و حمل کے ناکافی نیٹ ورکس، بجلی اور پانی کی نا قابل بھروسہ قلت ان کے لیے موثر طریقے سے کام کرنا مشکل بناتی ہے اس طرح ملک کی کل جی ڈی پی کی نمو کو روکا جا رہا ہے جو حالیہ برسوں میں سالانہ 2 سے 3 فیصد تک منڈلا رہا ہے. پاکستان کے شہروں کو بے کار قواعد و ضوابط، طاقتور مافیاز اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے ذریعے پیدا کردہ کاروباری جمود سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ذکی اعجاز نے کہا کہ اسے فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ شہروں کو انفراسٹرکچر کی ترقی اور سماجی خدمات کے ساتھ ترقی کو متوازن کرتے ہوئے تیزی سے شہری کاری کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہ بڑے پیمانے پر قومی آمدنی میں فعال طور پر حصہ ڈال سکیں شہری مراکز کے کردار کو بڑھانے کی کوششوں کو ایک دو شہروں تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ ہر شہر اور قصبے تک پھیلایا جانا چاہیے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ کے ساتھ
پڑھیں:
چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے،سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رولینڈ بش
چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے،سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رولینڈ بش
بیجنگ :کچھ عرصہ قبل چینی صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں بین الاقوامی کاروباری برادری کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی ، جن میں جرمنی کے سیمنز اے جی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے
چیئرمین رولینڈ بش شامل تھے۔
حال ہی میں چائنا میڈیا گروپ کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات بہت حوصلہ افزا رہی ۔ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں چینی صدر شی جن پھنگ کی شرکت سے مارکیٹ کو مزید کھولنے اور غیر ملکی صنعتی و کاروباری اداروں کا چین میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے کا خیرمقدم کرنے کا پیغام دیا گیا۔
رولینڈ بش کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے اور ترقی پذیر ممالک کے لئے قدر پیدا کرنے کے لئے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ترقی پذیر ممالک کے درمیان رابطوں کی تکمیل کے حوالے سے مددگار ہے اور تجارت کو آسان بنانے اور مارکیٹ کے کھلے پن کو فروغ دینے کے لئے نہایت اہم ہے.اس کے علاوہ یہ تحفظ پسندی کی مخالفت کرتا ہے اور عالمی معیشت کو تیزی سے ترقی دینے میں مدد کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیمنز 150 سال سے زائد عرصے سے چینی مارکیٹ میں موجود ہے۔ اس وقت، سیمنز کے چین میں 30،000 ملازمین ہیں، جن میں سے 5،000 آر اینڈ ڈی سیکٹر میں مصروف عمل ہیں. سیمنز کے پاس 12,000 فعال پیٹنٹ ہیں اور مستقبل میں سیمنز کمپنی نا صرف چین کے لئے مزید موزوں مصنوعات تیار کرنا جاری رکھےگی بلکہ مناسب موقع پر ان مصنوعیات کو پوری دنیا میں متعارف بھی کروائےگی .
بش کے مطابق سیمنز کے لئے چین دنیا میں سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے اور کمپنی نے کبھی بھی چینی مارکیٹ سے دستبرداری پر غور نہیں کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ چین سب سے جدید اور متحرک مارکیٹ کے طور پر ترقی کر رہا ہے اور اگر سیمنز بین الاقوامی سطح پر مسابقتی عمل میں رہنا چاہتا ہے تو اسے چین مین مقابلہ کرنا ہوگا.
ان کا کہان تھا کہ چین میں شاندار ٹیلنٹ موجود ہے ۔ اس وقت، چین نئے معیار کی پیداواری قوتوں کو فروغ دے رہا ہے، جو کئی سالوں کی ترقی کا تسلسل ہے.
سی ایم جی کو دیے گئے اس خصوصی انٹرویو میں مسٹر رولینڈ بش نے کہا کہ چین دنیا کی جدید ترین مارکیٹوں میں سے ایک ہے او ر چین کے اعلیٰ معیار کے کھلے پن میں وسعت غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے اچھے مواقع فراہم کرتی ہے۔ مسٹر بش نے چین کی مستقبل کی ترقی پر اعتماد کا اظہار کیا ۔
Post Views: 5