رمضان المبارک ؛ سرکاری اداروں کے اوقات کار جاری
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
بابر شہزاد : وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری اداروں میں رمضان المبارک کے اوقات کار جاری ہوگئے ،
نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ کے 5 دن کام کرنے والے دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 3 بجے تک ہوں گے،ہفتہ کے 6 دن کام کرنے والے دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 2 بجے تک ہوں گے،جمعہ کو سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے ساڑھے 12 بجے تک ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے رمضان المبارک کے اوقات کار کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا
وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری اداروں میں رمضان المبارک کے اوقات کار جاری کر دیئے گئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ کے 5 دن کام کرنے والے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے 3 بجے تک ہوں گے جبکہ رمضان کے دوران ہفتہ کے 6 دن کام کرنے والے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے دوپہر 2 بجے تک ہوں گے، مزید برآں جمعتہ المبارک کو سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 9 سے ساڑھے 12 بجے تک ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے رمضان المبارک کے اوقات کار کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے
حکومت وزرا کی فوج لیکر بھی اپنی نا اہلی کو ختم نہیں کر سکتے: شبلی فراز
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: رمضان المبارک کے اوقات کار دن کام کرنے والے بجے تک ہوں گے ہفتہ کے
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔