ایف بی آر ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام، 8 ماہ میں 601 ارب کے شارٹ فال کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کورواں مالی سال 2024-25 کے پہلے 8 ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران مجموعی طور پر 601 ارب روپے کے عبوری ریونیو شارٹ فال کا انکشاف ہوا ہے،جبکہ گزشتہ ماہ(فروری) 133 ارب روپے کے عبوری ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے ایف بی آر کے سینئر افسر نے جمعہ کی شب’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 7344 ارب روپے کا عبوری ٹیکس جمع کیا ہے جبکہ مقررہ ہدف 7947 ارب روپے تھا۔
اس لحاظ سے رواں مالی سال کے پہلے8 ماہ کے دوران 604 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا ہے، فروری 2025 میں ایف بی آر نے 850 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا جبکہ رواں ماہ کا مقررہ ہدف 983 ارب روپے تھا، یوں فروری 2025میں 133 ارب روپے کا شارٹ فال رہا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کو مالی سال کے پہلے 7 ماہ (جولائی تا جنوری) میں بھی 468 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا تھاجس کی بڑی وجہ مستحکم ایکسچینج ریٹ، توقع سے کم مہنگائی، بڑے پیمانے پر پیداوار میں سست روی اور جی ڈی پی کی کم شرح نمو ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ 2024-25 میں فنانس ایکٹ 2024 کے تحت 1.
حکام کا کہنا ہے کہ مالی سال کے آخری چار ماہ (مارچ تا جون 2025) میں ٹیکس وصولیوں میں بہتری کی توقع ہے اور اس دوران خودکار نمو کے نتیجے میں مزید نقصان نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مالی سال کے ارب روپے کا ایف بی آر شارٹ فال
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔