رمضان المبارک کی پہلی سحری میں ہی گیس غائب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
گیس کمپنیوں کے اعلانات کے باوجود مختلف شہروں میں رمضان المبارک کی پہلی سحری میں گیس غٓائب رہی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گیس فراہمی کے اداروں نے ماہ رمضان المبارک میں سحر اور افطار کے اوقات میں گیس فراہمی کے اعلانات کیے تھے۔ تاہم پہلی سحری پر کئی شہروں میں سحر کے وقت گیس غائب رہی اور لوگوں کو سحری کی تیاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔کراچی اور راولپنڈی کے کئی علاقوں میں گیس نہ ہونے کے باعث خواتین کو گھروں میں سحری کی تیاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوٹلوں پر عوام کا رش لگ گیا۔کراچی کے علاقوں رفاہ عام سوسائٹی ملیر، ناظم آباد، گلبہار اور رنچھوڑ لائن میں گیس غائب رہی۔ راولپنڈی کے علاقوں سکستھ روڈ، سیٹلائٹ ٹاون، راو ٔڈھوک کشمیریاں، ڈھوک پراچہ، سروس روڈ کےعلاقوں میں بھی سحری میں لوگ گیس کا انتظار کرتے رہے۔اس کے علاوہ ڈھوک کالا خان، خرم کالونی، صادق آباد میں بھی چولہوں میں گیس نہ آئی۔ دیگر کئی علاقوں میں بھی گیس بندش کی اطلاعات ملی ہیں۔سحری کے اوقات میں گیس نہ ہونے کے باعث خواتین کو سحری کی تیاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ متاثرہ علاقوں میں ہوٹلوں پر سحری کے لیے تیار پراٹھے، انڈے اور چائے کی خریداری کے لیے لوگوں کا رش لگ گیا۔کئی علاقوں میں سحری دستیاب نہ ہونے پر لوگوں نے بغیر سحری پہلا روزہ رکھا۔واضح رہے کہ سوئی ناردرن گیس کمپنی نے اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے ماہ رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے اوقات میں بلاتعطل گیس کی فراہمی کا اعلان کیا تھا لیکن اس اعلان پر پہلے روز ہی عملدرآمد نہ ہوسکا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: رمضان المبارک علاقوں میں میں گیس
پڑھیں:
غزہ: حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو تباہ کن حالات کا سامنا، یو این ادارہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے بتایا ہے کہ غزہ میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کو غیرفعال طبی نظام، نفسیاتی دباؤ اور خوراک سے محرومی سمیت تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔
ادارے کے مطابق، رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران غزہ میں 17 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی جو گزشتہ تین سال کی شرح کے مقابلے میں 41 فیصد کم تعداد ہے۔
Tweet URL'یو این ایف پی اے' میں عرب ممالک کے لیے ریجنل ڈائریکٹر لیلیٰ بکر نے کہا ہے کہ ہر ماں اور بچے کو محفوظ پیدائش اور زندگی کے صحت مند آغاز کا حق حاصل ہے۔
(جاری ہے)
لیکن غزہ میں ماؤں اور بچوں کو ان حقوق سے دانستہ محروم رکھا جا رہا ہے اور پوری نسل تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ایسے پریشان کن حالات کے علاوہ غزہ پر اسرائیل کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی تمام آبادی کم از کم ایک مرتبہ بے گھر ہو چکی ہے اور 60 ہزار سے زیادہ لوگ اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
قابل انسداد اموات'یو این ایف پی اے' نے کہا ہے کہ طبی نگہداشت کے نظام کو منظم طور سے حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پہلے ہی تباہی سے دوچار ہے اور اس کے نتیجے میں ماؤں اور نومولود بچوں کو ناقابل برداشت صورتحال کا سامنا ہے۔
بیشتر ہسپتال اور طبی مراکز تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ ادویات اور طبی سازو سامان کی شدید قلت ہے۔لیلیٰ بکر نے بتایا ہے کہ غزہ میں ایمبولینس گاڑیاں چلانے میں بھی سنگین مشکلات حائل ہیں جس کے باعث حاملہ خواتین کو طبی خدمات کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں زچگی کے دوران قابل انسداد پیچیدگیاں بھی موت کا باعث بن جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں نوزائیدہ ماؤں اور ان کے بچوں کی تکالیف ناقابل تصور ہیں۔امداد کی بحالی کا مطالبہ'یو این ایف پی اے' نے بتایا ہے کہ اس کے 170 ٹرک مارچ سے امدادی سامان لے کر غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں جس میں الٹراساؤنڈ مشینیں، پورٹیبل انکیوبیٹر اور زچگی میں علاج معالجے کا سامنا موجود ہے لیکن انہیں غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ادارے نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں ایندھن، طبی سازوسامان اور مقوی خوراک سمیت ہر طرح کی انسانی امداد کی بلارکاوٹ اور مسلسل فراہمی کو بحال کرے۔ اس معاملے میں ہر لمحے ہونے والی تاخیر کے نتیجے میں مزید لوگ قابل انسداد وجوہات کی بنا پر موت کا شکار ہو جائیں گے اور غزہ کی آبادی کو درپیش ناقابل بیان تکالیف میں اضافہ ہوتا جائے گا۔