پاکستان کے حکمران قرض لیکر معیشت کو مزید کمزور کر رہے ہیں، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
لاہور میں تقریب سے خطاب میں سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسیت اور عدلیہ میں آئی ایم ایف کا براہ راست اثر بڑھتا جا رہا ہے، قومی فیصلے یرونی مالیاتی ادارے کر رہے ہیں، اصل بحران دیوالیہ پن نہیں، بلکہ خودمختاری کا خاتمہ ہے،گزشتہ سال آئی ایم ایف کا وفد نہ صرف پاکستانی جیلوں میں قیدی سیاستدانوں سے ملا، بلکہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی۔ یہ محض رسمی ملاقاتیں نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کی عدالتیں بھی مالیاتی اداروں کے مفادات کیخلاف فیصلے نہ کریں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا تھا کہ اس وقت پاکستان کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک کمزور معیشت ہے، جو مسلسل بحران کی لپیٹ میں ہے، دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ملک کو موجودہ حکومت نے اپنی انتھک کوششوں سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے، ہمارے وزیراعظم مسلسل عالمی دورے کر رہے ہیں، کبھی ازبکستان، کبھی آذربائیجان، کبھی تاجکستان، یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جہاں خود معیشت بحران میں ہیں، وہاں بھی پاکستانی قیادت مدد کی امید لئے پہنچ رہی۔ ان کی کاوشوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو بظاہر دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا گیا، لیکن حقیقت میں ملک کو ایک دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس اپنے بنیادی اخراجات، قرضوں کی ادائیگی اور روزمرہ کے اخراجات کیلئے وسائل باقی نہ رہیں۔ یعنی قومی خزانہ خالی ہو جائے، تنخواہیں دینا ممکن نہ رہے اور ملک مکمل طور پر مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے۔ حکومت فخریہ انداز میں یہ اعلان کر رہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ اس مقصد کیلئے حکومت نے آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے بے تحاشہ قرضے لیے، جن میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، عرب بینک اور ملکی بینک شامل ہیں۔ قرضے لینا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، لیکن ان کی شرائط تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں، اور یہی پاکستان کیساتھ ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کوئی خیرات تقسیم کرنیوالا ادارہ نہیں، بلکہ ایک ایسا مالیاتی شکنجہ ہے جس میں جو ملک پھنس جائے، وہ خودمختاری کھو دیتا ہے، اس ادارے نے ارجنٹائن، ملیشیا، فلپائن سمیت کئی ممالک کو معاشی طور پر مفلوج کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی صورتحال مختلف نہیں۔ اب ملک کی مالیاتی پالیسیاں حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف طے کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال آئی ایم ایف کا وفد نہ صرف پاکستانی جیلوں میں قیدی سیاستدانوں سے ملا، بلکہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی۔ یہ محض رسمی ملاقاتیں نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کی عدالتیں بھی مالیاتی اداروں کے مفادات کیخلاف فیصلے نہ کریں۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالتوں کے فیصلے بھی اب آئی ایم ایف کی نگرانی میں ہوں گے؟ کیا اب یہ طے کرے گا کہ کون سا سیاستدان کب تک جیل میں رہے گا اور کس کو ضمانت ملے گی؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔