پی ٹی آئی دور حکومت میں کرپشن کی تحقیقات، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں سامنے آنے والی مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے اہم اقدام اٹھا لیا ہے۔ 2019 میں سامنے آنے والی مالی بدعنوانی کے تحت 18 کیسز تحقیقات کے لیے ڈی جی اینٹی کرپشن کو بھجوا دیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈی جی خان اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی فیصل آباد میں مالی بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری نے وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم سے بھی مدد حاصل کر لی ہے جبکہ محکمہ صحت سمیت دیگر متعلقہ محکموں سے ضروری ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے۔
کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ جو افسران ریکارڈ فراہم نہیں کریں گے، ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تھری اب تک مختلف محکموں سے ڈیڑھ ارب روپے کی ریکوری کر چکی ہے، جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔