ترکی اور کرد عسکریت پسندوں کے مابین جنگ بندی کے اثرات کیا ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) شمالی عراق میں ترک افواج اور کرد عسکریت پسندوں کے درمیان برسوں سے جاری لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے عراق کے کرد دیہاتیوں میں امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ جلد ہی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔
ان کی امیدیں اس وجہ سے بڑھ گئی ہیں کیوں کہ گزشتہ روز کردستان ورکرز پارٹی یا 'پی کے کے‘ نے 40 سالہ شورش کے بعد فائر بندی کا اعلان کر دیا۔
کردستان ورکرز پارٹی نے یہ اعلان اس وجہ سے کیا کہ چند ہی دن پہلے 1999ء سے ترکی میں قید اس گروپ کے رہنما عبداللہ اوجلان نے اپنی تحریک کے کارکنوں سے ہتھیار پھینک دینے کی اپیل کی تھی۔کرد کون ہیں؟ ترکی نے حملہ کیوں کیا؟
اگر یہ فائر بندی مؤثر رہتی ہے، تو نہ صرف ترکی میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گی بلکہ یہ ترکی اور اس کے ہمسایہ ملک عراق کے درمیان غیر مستحکم سرحدی خطے میں ضروری استحکام بھی لا سکتی ہے۔
(جاری ہے)
حالیہ برسوں کے دوران ترک افواج شمالی عراق میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف متعدد مرتبہ کارروائیاں کر چکی ہیں۔ انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ کرد عسکریت پسندوں نے عراق کے شمالی نیم خود مختار کرد علاقے میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ لڑائی سے مقامی کسان متاثراس علاقے میں سینکڑوں دیہات ان کے مکینوں سے مکمل طور پر خالی ہو چکے ہیں۔
عادل طاہر قادر سن 1988 میں کوہ متین پر واقع اپنے گاؤں برچی سے فرار ہو گئے تھے۔ اس وقت عراقی آمر صدام حسین نے علاقے کی کرد آبادی کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔ اب وہ پہاڑ کے جنوب میں تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نئے تعمیر شدہ گاؤں میں رہتے ہیں۔ اس نئے گاؤں کا نام بھی برچی رکھا گیا ہے۔ وہ اپنی زمین پر کھیتی باڑی کرنے کے لیے پرانے گاؤں واپس جایا کرتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ سن 2015 میں اس وقت بند ہو گیا، جب ترک مسلح افواج نے 'پی کے کے‘ کے خلاف لڑائی شروع کی اور وہاں اپنی فوجی چوکی قائم کر لی۔اس دوران عراقی کرد کسانوں اور ان کی زمینوں کو نقصان پہنچا۔ 'پی کے کے‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والے ترکی کے فضائی حملوں اور زمینی در اندازی نے ہزاروں عراقی کرد شہریوں کو بے گھر کر دیا اور بہت سے کسانوں کی ان کے کھیتوں تک رسائی منقطع ہو گئی۔
قادر کہتے ہیں، ''ترکی کی طرف سے بمباری کی وجہ سے ہماری تمام کھیتی باڑی اور درخت جل گئے۔‘‘ اپنے علاقوں میں واپسی کی امیدان کا کہنا ہے کہ اگر امن آتا ہے تو وہ فوراً واپس چلے جائیں گے، ''ہماری خواہش ہے کہ یہ (معاہدہ) کام کرے تاکہ ہم واپس جا سکیں۔‘‘ قریبی گاؤں بیلاوا سے تعلق رکھنے والے نجیب خالد راشد کا کہنا ہے کہ وہ بھی خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
قریب قریب روزانہ ہی بم دھماکوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اپنی بھیڑ بکریاں نہیں چرا سکتے یا امن سے اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی نہیں کر سکتے۔‘‘کرد جماعت نے انقرہ دھماکوں کی ذمہ داری حکومت پر عائد کر دی
عراق کے کرد دیہاتی ترکی میں کرد شورش اور خاص طور پر 'پی کے کے‘ کی کارروائیوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں حالانکہ اس تنظیم کی جڑیں اس علاقے میں گہری ہیں۔
ترکی اور اس کے مغربی اتحادی بشمول امریکہ کردستان ورکرز پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔تاہم خالد راشد کا کہنا تھا کہ تمام کرد دھڑوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر امن عمل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، ''اگر اتحاد نہیں ہے تو ہم کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘‘
ساتھ ہی واقع ایک گاؤں کے احمد سعد اللہ کے مطابق ایک وقت تھا، جب یہ خطہ معاشی طور پر خود کفیل تھا، ''ہم اپنی کھیتی باڑی، مویشیوں اور زراعت پر گزارہ کرتے تھے۔
سن 1970 کی دہائی میں یہاں کی تمام پہاڑیاں انگوروں اور انجیروں سے بھری ہوئی تھیں۔ ہم نے گندم، تل اور چاول اگائے۔ ہم ہر چیز اپنے کھیتوں میں سے لے کر ہی کھاتے تھے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران وہ اپنے کھیتوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں جبکہ مقامی لوگ حکومتی امداد اور ''غیر مستحکم، موسمی ملازمتوں‘‘ پر انحصار کرتے ہیں۔
آج ہم جنگی طیاروں، ڈرونز اور بمباری کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‘‘تاہم وہاں کے لوگوں کی آنکھوں میں امید کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات بھی جھلک رہے ہیں کیوں کہ ماضی میں جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سن 1993 اور 2015 میں بھی اسی طرح کی امن کوششیں ہوئی تھیں، جو بعد میں ناکام ہو گئی تھیں۔ تاہم انہیں امید ہے کہ اس مرتبہ کچھ مختلف ہو گا۔
ا ا / م م (اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں پی کے کے عراق کے کا کہنا کی اور
پڑھیں:
عید الاضحی کے روز مزید سولہ فلسطینی ہلاک، حماس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) غزہ میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جمعے کے دن اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے تین علاقوں میں جیٹ طیاروں سے بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم سولہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کی طرف سے ہلاکتوں کی ان رپورٹس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کے روز شمالی غزہ کے مخصوص بلاکس کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے تھے۔
عینی شاہدین اور طبی عملے نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے جبالیہ اور بیت ہانون پر جمعے کی صبح سے حملے تیز کر دیے ہیں۔
(جاری ہے)
امدادی کی بحالی شروعامریکی حمایت یافتہ 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ جی ایچ ایف نے روئٹرز کو ای میل کے ذریعے بتایا ہے کہ اس نے جمعے کو امداد کی فراہمی کا سلسلہ بحال کر دیا ہے حالانکہ اس نے اپنی آفیشل فیس بک پوسٹ میں اعلان کیا تھا کہ اس کے امدادی مراکز تا حکم ثانی بند رہیں گے۔
اس تنظیم نے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے پیش نظر امدادی مراکز کے قریب نہ آئیں کیونکہ حالیہ دنوں میں فائرنگ کے مہلک واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے جمعے کو ایکس پر لکھا کہ فلسطینیوں کو صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک امدادی مراکز کی جانب 'آزادانہ نقل و حرکت‘ کی اجازت ہو گی لیکن اس کے بعد وہاں نقل و حرکت جان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اسرائیل نے دو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد وسط مارچ سے غزہ پٹی پر قابض حماس تنظیم کے خلاف دوبارہ شدید کارروائیاں شروع کی تھیں۔
جنگ بندی کے مطالبات میں شدتحالیہ ہفتوں کے دوران عالمی رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی کسی ڈیل کو حتمی شکل دی جائے۔
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے جمعرات کو کہا کہ فلسطینی تنظیم حماس غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام کے لیے مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اسرائیل اور حماس ایک معاہدے کے قریب دکھائی دیے تھے لیکن کوئی معاہدہ طے نہ پا سکا۔ امریکی حمایت یافتہ اس تجویز کی ناکامی کے لیے دونوں فریقین ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
ساتھ ہی اسرائیل پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ غزہ میں زیادہ امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے کیونکہ دو ماہ سے زیادہ کے محاصرہ کے بعد وہاں خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت ہو چکی ہے۔
حال ہی میں اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی میں کچھ نرمی کی ہے اور امریکی حمایت یافتہ قائم کردہ نئی تنظیم 'غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ مل کر جنوب اور وسطی غزہ میں چند مراکز کے ذریعے امداد کی تقسیم کا نیا نظام نافذ کیا ہے۔
یہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟غزہ پٹی میں مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، زمینی اور بحری حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جو جنگ بندی ڈیل تک جاری رہے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اٹھارہ مارچ کو جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک کم از کم 4,402 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 54,677 سے زائد بتائی جاتی ہے، جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ غزہ پٹی کا زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔
ادارت: رابعہ بگٹی، عدنان اسحاق