Express News:
2025-04-25@02:30:58 GMT

تلخ ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

ولادیمیر زیلنسکییوکرین کا مقبول صدر ہے۔ بنیادی طور پر اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیںہے۔ ڈراموں اور فلموں میں درمیانے درجہ کا جگت باز اور کامیڈین تھا۔ 2019 میں یوکرین میں الیکشن منعقد ہوئے جس میں زیلنسکی نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ وہاں کے شہریوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔

2022 میں متعدد وجوہات کی بنا پر روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ صرف ایک وجہ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ زیلنسکی ‘ اپنے ملک میں نیٹو کے ذریعے ‘ ایٹمی میزائل لگانے پر تیار ہو چکا تھا۔ یعنی یوکرین‘ روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا تھا ۔ سب لوگ یہ بھی بھول گئے کہ اس نے یوکرین میں مارشل لاء نافذ کیا ہوا ہے اور امن کے متعلق بات کرنے والے تمام سیاست دان پابند سلاسل ہیں۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن ‘ نائب صدرکمیلا ہیرس‘ پینٹا گون اور نیٹو کے سربراہ نے زیلنسکی کو صرف چند دنوں میں ‘ آزاد دنیا کا چیمپئن بنا کر پیش کر دیا۔

یورپ کو باور کرایا گیا کہ روس سے انھیں خطرہ ہے ۔ لہٰذا اب زیلنسکی کو ہر طرح کی سویلین اور فوجی امداد چاہیے۔ خزانوں کے مونہہ کھول دیے گئے۔ صرف امریکا نے یوکرین کو 250بلین ڈالر امداد فراہم کی جس میں ستر سے سو بلین ڈالر کے ہتھیار تھے۔ بہر حال زیلنسکی ایک بنیان اور پینٹ پہن کر یورپ اور امریکا کادورہ کرتا تھا اور اپنی شرائط پر وہاں سے ہر طرح کی سہولتیں حاصل کرتا تھا۔ یہاں میں ایک حد درجہ نازک نکتہ عرض کروں گا۔ جو بائیڈن ‘ اتنا ضعیف ہو چکا تھا کہ اس کی یادداشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ وہ ہر معاملہ بھولنے لگ گیا تھا۔ اس کی بیماری کا سب سے زیادہ فائدہ کمیلا ہیرس اور امریکا کی Deep state نے اٹھایا ۔ جوبائیڈن ایک کھلونا بن کر رہ گیا۔ یہ معاملہ بڑی بہتری سے چل رہا تھا۔

امریکا اور یوکرین میں امریکی امداد کا غتر بود جاری تھا کہ حالیہ الیکشن میں ٹرمپ‘ تمام تر مخالفت کے باوجود‘ صدر بن گیا۔ یہ وہ فرق تھا جو دنیا اور زیلنسکی بالکل سمجھ نہیں پائے۔ ان کا خیال تھا کہ ‘ Business as usual ہی رہے گا۔ مگر ٹرمپ ہر معاملہ سمجھ چکا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ پوری دنیا میں کسی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرے گا۔ جنگیں ہونے نہیں دے گا‘ بلکہ جو جنگیں جاری ہیں ‘ ان کو ہر قیمت پر ختم کرائے گا۔ اس کے علاوہ امریکی ٹیکس پیئرز کے پیسوں پر چلنے والے اللے تللے مکمل طور پر ختم کرے گا۔ بلکہ امریکا سے دی گئی امداد کو واپس وصول کرے گا۔

یہ وہ جوہری تبدیلی ہے جس کا مظاہرہ ‘چند دن پہلے ‘ وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے ساتھ دیکھنے کو ملا۔ ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ بند کرانے کے لیے‘ پوٹن کو بھی اعتماد میں لیا۔ یوکرین کے حکام بالا سے واشنگٹن میں لا تعداد میٹنگز ہوئیں۔ طے یہ ہوا کہ یوکرین امریکا کو قیمتی دھاتیں فراہم کرے گا جس سے امریکا اپنی امداد سے ہونے والے نقصان کو پورا کرے گا۔ یہ تمام معاملات ‘ حد درجہ اعتماد اور مہارت سے ایک معاہدے کی صورت میں لکھے گئے۔ زیلنسکی نے یہ معاہدہ دیکھ لیا تھا اور اس نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر دستخط کرے گا۔

حالانکہ اس کی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔ مگر زیلنسکی ‘ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ میڈیا کی چکا چوند میں رکھنا چاہتا تھا۔ یہاں تک معاملہ بالکل قابل فہم تھا۔ مگر زیلنسکی یہ ادراک نہیں کرپایاکہ اس نے وہائٹ ہاؤس میں کون سی بات کرنی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ تھا کہ کون سی بات نہیں کرنی بلکہ بالکل نہیں کرنی۔ تین دن پہلے جب یوکرین کا صدر ‘ وہائٹ ہاؤس پہنچا تو صدر ٹرمپ نے روایت کے مطابق اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ خود اسے خوش آمدید کہنے کے لیے دروازے سے باہر آیا۔ اس کے بعد اوول آفس (Oval office) میں وہ میٹنگ شروع ہوئی جس میں تمام بین الاقوامی پریس کے نمائندے موجود تھے۔ صدر ٹرمپ نے ابتداء میں یوکرین کے بہادر فوجیوں اور ان کی قربانیوں کی از حد تعریف کی ۔

یہ ملاقات 48منٹ تک جاری رہی۔ معاملہ حد درجہ خوشگوار طریقے سے چل رہا تھا۔ بار بار‘ ٹرمپ‘ کہہ رہا تھا کہ وہ ایک ڈیل میکر ہے اور پوری زندگی ڈیلز کرتا رہا ہے۔ اور اتنی خوفناک جنگ کو رکوانا صرف اور صرف ڈپلومیسی (Diplomacy) سے ہی ممکن ہے۔ میٹنگ کے دوران ‘ زیلنسکی نے سفارتی آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے نائب صدر ‘ JD.

vance سے براہ راست سوال کیا کہ ڈپلومیسی سے اس کی کیا مراد ہے؟ ساتھ ہی ساتھ اس نے امریکی نائب صدر کو J.D کہہ کر مخاطب کیا۔ گزارش ہے کہ امریکا میں صرف وہی لوگ آپ کو First name  سے بلا سکتے ہیں جو آپ کے قریبی دوست ہوں یا آپ کی فیملی ہو۔ بہر حال نائب صدر اس بات کو بھی پی گیا۔ اس نے جواب دیا کہ سفارت کاری ایک مشکل کام ہے اور مقصد صرف جنگ رکوانا ہے۔

جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ زیلنسکی معاملہ فہمی میں حد درجہ کمزور انسان ہے۔ اس کے ذہن میں جوبائیڈن اور اس کی سابقہ ٹیم تھی جو اس کی ہر بدتمیزی برداشت کرتی رہتی تھی۔ اس نے نائب صدر کو کہا کہ آپ چلا کیوں رہے ہو۔ ٹرمپ سمجھ گیا کہ یوکرین کا صدر ریڈلائن کراس کر رہا ہے۔ اس نے برملا کہا کہ J.D قطعاً بلند آواز میں بات نہیں کر رہا۔ اب معاملہ بگڑنا شروع ہو گیا۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو سمجھایا کہ مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ اگر اس بلا کو نہ روکا گیا تو یہ تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ زیلنسکی نے یہ کہا کہ وہ پوٹن کی وعدہ خلافیوںکو جانتا ہے۔ اور اسے میڈیا کے سامنے بار بار قاتل کہنا شروع کر دیا۔ تو معاملہ مزید بگڑ گیا۔

ٹرمپ اس کو یہ بتاتا رہا کہ جنگ سے یوکرین تباہ ہو چکا ہے۔ اس کی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی بھی نوجوان تیار نہیں ہے اور امریکی امداد کے بغیر ‘ یوکرین دو دن بھی روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اسے معاملات کو حل کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے بالکل صاف لہجے میں یوکرین کے صدر کو بتایا کہ اس کے پاس جیتنے کے لیے کسی قسم کا کوئی کارڈ نہیں ہے۔ امریکی امداد ہی وہ سب سے بڑا تاش کا پتا ہے جو یوکرین کو اب تک مفتوح ہونے سے بچا رہا ہے۔ مگر زیلنسکی بہت جذبات میں آ چکا تھا اور یہ بات کسی بھی لیڈر کے لیے حد درجہ خطرناک ہوتی ہے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی بات ہوئی کہ زیلنسکی اتنی امداد لینے کے باوجود امریکا کا شکر گزار نہیں ہے۔ بلکہ امریکی نائب صدر نے تو برملاکہا کہ یوکرین کے صدر نے آج تک امریکا کا کسی قسم کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ چند ماہ پہلے‘ صدر ٹرمپ کے سیاسی مخالفین سے خطاب بھی کرتا رہا ہے۔ اب معاملہ حد سے آگے چلا گیا۔ ٹرمپ ‘ حد درجہ ہوشیار آدمی ہے۔ اس نے وہاں کہا کہ وہ دنیا کے میڈیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ زیلنسکی جنگ روکنے میں سنجیدہ نہیں ہے ۔

میٹنگ ختم ہو گئی۔ ٹرمپ کے اسٹاف نے صدر زیلنسکی کو وہائٹ ہاؤس سے باہر جانے کا کہہ دیا۔ جو حکومتی ‘ ظہرانہ منعقد ہونا تھا ‘ وہ بھی کینسل کر دیا گیا۔ زیلنسکی کو گاڑی تک الوداع کہنے کے لیے ‘ حکومتی سطح کا ایک جونیئر اہلکار آیا ۔ یہ معاملہ پوری دنیا نے براہ راست دیکھا۔ مگر اس کے بعد‘ ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔

یورپ کے سربراہان نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ یوکرین کے صدر کو امداد دیتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ دراصل امریکا کی نہیں بلکہ یورپ کی جنگ ہے۔ ہاں ایک اور بات ۔ میٹنگ کے دوران ‘ زیلنسکی نے حد درجہ درشت لہجے میں صدر ٹرمپ کو کہا ‘ کہ امریکی سمندر کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ تھوڑے عرصے کی بات ہے امریکی عوام کو بھی محسوس ہوجائے گا کہ معاملات کیا ہیں۔ یہ واحد موقع تھا جس پر ٹرمپ نے غصہ سے کہا کہ آپ کون ہیں کہ ہمیں بتائیں‘ کہ امریکی عوام‘ کس معاملہ کو کس طرح محسوس کریں گے۔ یہ بات حد درجہ بے جواز کی گئی ہے۔ بہر حال میٹنگ ختم ہو گئی۔

ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے تمام ملک مل کر بھی یوکرین کی وہ عسکری مدد نہیں کر سکتے‘ جو اکیلا امریکا کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے بغیر‘ یوکرین زیادہ دیر تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ امریکا ‘ کا دفاعی بجٹ ‘ پورے یورپ کے مجموعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔

زیلنسکی کے تین چار غیر ذمہ دارانہ جملوں نے یوکرین کو وہ نقصان پہنچا دیا ہے‘ جو اسے روس بھی نہیں پہنچا سکا۔یوکرین کے سفارت کار‘ دو تین دنوں سے امریکا کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیںکہ معاملہ کو ختم کیا جائے اور معدنیات اور جنگ بندی کی ڈیل پر دستخط کیے جائیں ۔ مگر اب امریکی حکام نہیں مان رہے۔ بہر حال یہ سبق ہے دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے‘ جو بائیڈن سے ہر طرح کے فوائد حاصل کرتے رہے ہیں اور Deep state کے مرہون منت ‘ اپنے ملکوں میں لوگوںکے مقدرسے کھیلتے رہے ہیں۔ خیال ہے‘ کہ ٹرمپ‘ دنیا بدل رہا ہے!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیلنسکی نے زیلنسکی کو نے یوکرین یوکرین کے چکا تھا رہا تھا بہر حال ٹرمپ کے رہے ہیں نہیں کر نہیں ہے ہیں ہے کے لیے کہا کہ کر دیا رہا ہے صدر کو تھا کہ ہے اور کے صدر کرے گا

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • جنگ یوکرین کے 1 ہی دن میں خاتمے پر مبنی وہم کا ٹرمپ کیجانب سے اعتراف
  • یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • روس کے ڈرون طیارے بنانے کے کارخانے میں چینی شہری کام کر رہے ہیں. زیلنسکی کا الزام
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • یوکرین روس کیساتھ براہ راست بات چیت کیلئے تیار ہے: صدر زیلنسکی
  • ’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟