امریکہ: یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے کا حکم جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو یوکرین کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد کو عارضی طور پر معطل کرنے کا حکم دیا۔ یہ پیش رفت وائٹ ہاؤس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی تکرار کے چند دن بعد ہوئی ہے۔
زیلنسکی کا یورپ کے ساتھ امن معاہدے کی شرائط طے کرنے کا اعلان
متعدد خبر رساں ایجنسیوں نے وائٹ ہاؤس کے ایک نامعلوم اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ روس کے ساتھ جنگ کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اپنی امداد کو "روک رہا ہے اور جائزہ لے رہا ہے"۔
.اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا، "صدر ٹرمپ کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے، ان کی توجہ امن پر ہے۔
(جاری ہے)
اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے شراکت داروں کو بھی اس مقصد کے لیے پرعزم ہونا چاہیے۔"
ٹرمپ اور زیلنسکی میں گرما گرمی، کس نے کس کو کیا کہا؟
فاکس نیوز نے ایک نامعلوم سرکاری اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امداد کی مستقل معطلی کے مترادف نہیں ہے۔
زیلنسکی'امن' نہیں چاہتے، ٹرمپقبل ازیں پیر کے روز، ٹرمپ نے زیلنسکی کو یہ کہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ جنگ کا خاتمہ اب بھی "بہت، بہت دور" ہے۔
امریکی صدر نے اپنے سوشل پلیٹ فارم ٹروتھ پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تبصرہ "سب سے برا بیان ہے جو زیلنسکی نے دیا ہے، اور امریکہ اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرے گا!"
ٹرمپ نے کہا، "یہ وہی بات ہے جو میں کہہ رہا تھا، یہ آدمی اس وقت تک امن نہیں چاہتا جب تک کہ اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور یورپ نے، زیلنسکی کے ساتھ ملاقات میں صاف صاف کہا ہے کہ وہ امریکہ کے بغیر کام نہیں کرسکتے ہیں۔
"ٹرمپ نے مشورہ دیا ہے کہ اگر یوکرین کے صدر ماسکو کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر راضی نہیں ہوتے ہیں تو زیلنسکی "زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکیں گے"۔
امریکی صدر نے زیلنسکی پر "آمر" ہونے کا الزام بھی لگایا ہے اور متعدد امریکی حکام نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
زیلنسکی نے یوکرین کے 2019 کے صدارتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
اگلے صدارتی انتخابات مارچ 2024 میں ہونا تھے لیکن اسے ملتوی کر دیا گیا کیونکہ یوکرینی قانون مارشل لاء کے تحت قومی انتخابات کرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ٹرمپ اور زیلنسکی میں کس بات پر تکرار ہوئی؟جمعے کو زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا تاکہ یوکرین کی نایاب معدنیات تک امریکہ کو رسائی دینے کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں۔
معاہدے پر طے شدہ دستخط سے پہلے اوول آفس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، زیلنسکی نے ٹرمپ اور امریکی نائب صدر جے ڈی وانس کی اس وقت ناراض کردیا جب انہوں نے یہ دلیل دی کہ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے سے قبل سکیورٹی کی ضمانت کی ضرورت ہے۔ زیلنسکی نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پہلے بھی معاہدوں کا احترام نہیں کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق یوکرینی وفد کو اس کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے لیے کہا گیا اور معدنیات کے معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔
کئی یورپی رہنماؤں نے اس تکرار کے بعد یوکرین کی حمایت کا اعادہ کیا، جس سے یورپ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بحث چھڑ گئی ہے۔
اتوار کی شام، یورپی رہنماؤں نے لندن میں ایک سربراہی اجلاس میں یوکرین کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور یوکرین کی حمایت جاری رکھنے پر تبادلہ خیال کیا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دیتے ہوئے کہا زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس یوکرین کے معاہدے پر یوکرین کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔
امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔