چین کے دفاعی اخراجات عالمی اوسط سے کم ہیں، ترجمان این پی سی WhatsAppFacebookTwitter 0 4 March, 2025 سب نیوز

چین ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے پورا کرسکتا ہے، لو چھین جیئن
بیجنگ :14 ویں قومی عوامی کانگریس (این پی سی) کے تیسرے اجلاس سے متعلق پریس کانفرنس منگل کے روز عظیم عوامی ہال میں منعقد ہوئی۔ این پی سی کے ترجمان لو چھین جیئن نے اجلاس کے ایجنڈے اور این پی سی کے امور کے بارے میں چینی اور غیر ملکی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے۔

ترجمان نے کہا کہ چین کے دفاعی اخراجات نے 2016 سے لگاتار نو سال تک سنگل ڈیجٹ گروتھ برقرار رکھی ہے اور جی ڈی پی میں دفاعی اخراجات کا تناسب کئی سالوں سے 1.

5 فیصد کے اندر رہا ہے جو عالمی اوسط سے کم ہے۔ا

نہوں نے مزید کہا کہ امن کی حفاظت کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف ایک مضبوط قومی دفاع کا حامل چین ہی قومی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کا بہتر دفاع کرسکتا ہے، ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے پورا کرسکتا ہے اور عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھ سکتا ہے۔پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول نہ صرف چین کی امن پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں بلکہ کھلے، جامع، عالمگیر اور عملی بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصول بھی ہیں۔ چین پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کو فروغ دینے اور عالمی امن کے تحفظ اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہے۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: دفاعی اخراجات

پڑھیں:

وفاقی بجٹ 2025-26 کا اقتصادی منظرنامہ

ملکی معیشت کو چلانے کے لیے کسی بھی حکومت کے پاس بنیادی طور پر دو طرح کی معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ ایک مانیٹری (زری پالیسی) اور دوسری مالیاتی (فسکل/بجٹ) پالیسی۔ ان معاشی پالیسیوں کے اہداف میں مہنگائی اور بے روزگاری کا کنٹرول، معاشی نمو میں اضافہ اور ادائیوں میں توازن کو درست سمت میںرکھنا جیسے اہداف شامل ہوتے ہیں۔ تاہم موجودہ دور میں مانیٹری پالیسی کا کردار صرف افراط زر (اinflation) کو کنٹرول کرنے تک محدود کردیا گیا ہے۔ لہٰذا اب فسکل پالیسی کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔

کیا موجودہ بجٹ برائے مالی سال 2025-26ان اہداف کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوگا؟ کیا یہ بجٹ غربت اور بے روزگاری میں کمی لائے گا؟ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کے بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کا تخمینہ 17,573بلین روپے ہے، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 1304بلین کم ہے۔ موجودہ بجٹ کی کل رقم میں سے (93%)16286بلین کے کرنٹ یا جاری اخراجات ہیں اور محض 1287(7%)کے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

جاری اخراجات کی بڑی مدات میں سود کی ادائی کی مد سب سے بڑی ہے جس میں کل بجٹ کا 8207(47%) بلین خرچ ہوگا۔ سود کی یہ رقم گذشتہ چار سالوں میں چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کی جانب سے صحت اور تعلیم پر خرچ ہونے والی کل رقم سے879 بلین روپے زیادہ ہے! سود کی اس کل رقم کا تقریباً 88% ملکی قرضوں پر ادا کیا جائے گا اور باقی 12%غیرملکی قرضوں کی ادائی کے لیے رکھا گیا ہے۔

سود کے بعد دوسری بڑی مد دفاعی اخراجات کی ہے جو کہ 15%ہیں کل بجٹ کا تاہم موجودہ حالات میں بھارت جیسے جنگی جنون میں مبتلا پڑوسی کی موجودگی میں یہ اخراجات ناگزیر ہیں۔ تیسری بڑی مد گرانٹ اور ٹرانسفر کی ہے جس کی مد میں مختص کی جانی والی رقم 1928بلین جو کہ 11%ہے کل بجٹ کا، اس رقم کا بڑا حصہ سوشل پروٹیکشن کے لیے رکھا گیا ہے جس میں722بلین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کیے جائیں گے۔ جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 21% زیادہ ہے۔

بجٹ کے اخراجات میں اگلی بڑی مد سبسڈی کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1186بلین جو کہ کل بجٹ کا 7% ہے ، جس کا 87% تقریباً 1032 بلین پاور سیکٹر کو دیا جائے گا۔ اس رقم میں کراچی الیکٹرک کے لیے 125بلین روپے ٹیرف کے فرق (Tariff Differential)کے نام پر رکھے گئے ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ایک طرف پاور سیکٹر کو اتنی بھاری سبسڈی عوامی مفاد کے نام پر اور دوسری طرف سولر پینل پر18% سیل ٹیکس جس کے باعث عوام جو سستی بجلی پیدا کرکے اپنے اخراجات کو کم کرنے میں کام یاب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے لیے شمسی آلات کی خریداری مزید مشکل ہوجائے گی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس ٹیکس سے حکومت محض 20ارب کمائے گی۔

وفاقی حکومت کے اخراجات کی مد میں پانچویں بڑی مد پینشن کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1055بلین جو کہ کل بجٹ کا 6%ہے، جس میں سے ملٹری پینشن 70% اور سویلن کی پینشن 23% ہے۔ اس کے بعد اگلی مد ہے وفاقی حکومت کے اخراجات، جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 971 بلین جو کہ کل بجٹ کا 5.5% ہے۔ آخری مد برائے ناگہانی اور ایمرجینسی کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 389بلین جو کہ کل بجٹ کا 2.2%ہے۔ دوسری طرف وفاقی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے محض1287بلین رکھے گئے ہیں جو کہ کل بجٹ کا 7% بنتا ہے، جس میں سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کے لیے 1000بلین رکھے گئے ہیں۔ سکڑتا ہوا ترقیاتی بجٹ ایک بڑا چیلینج ہے اور لگتا ہے کہ انٹرنیشنل مالیاتی فنڈ (IMF) نے جو حکومتی اخراجات کم کرنے کی بات کی ہے اس کا اطلاق صرف اور صرف ترقیاتی اخراجات پر ہی ہوا ہے۔

اخراجات کے بعد اگر آمدنی کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس محصولات (Taxes)کی مد میں متوقع آمدنی 14131بلین ہے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی متوقع آمدنی 5147 بلین ہے، جس میں سے 8206 بلین صوبوں کو ٹرانسفر کردیا جائے گا۔ یعنی وفاقی حکومت کے پاس ملکی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے صوبوں کا حصہ نکال کر بچ جانے والی رقم 11072بلین روپے ہوگی۔ محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تقریباً 48.8% براہ راست ٹیکس (Direct Taxes) ہیں اور 51.2% بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) ہیں۔

براہ راست محصولات کا بڑھتا ہوا حصہ خوش آئند ہے۔ تاہم بالواسطہ محصولات کا حصہ مزید کم ہونا چاہیے۔ خاص طور پر بنیادی ضرورت کی چیزوں پر اس کو کم کیا جائے۔ آمدنی کے دیگر ذرائع پر جیسے ریٹیلر اور ہول سیلر کے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے گذشتہ بجٹ میں کافی زور دیا گیا تھا، تاہم اس بار اس میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔

وفاقی بجٹ میں حکومت کی آمدنی 11072بلین روپے ہے۔ تاہم اخراجات 17573بلین کے ہیں، جس کے باعث خسارے کا تخمینہ 6501 بلین ہے۔ اس خسارے کا کچھ حصہ بیرونی آمدنی اور نج کاری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ تاہم بڑا حصہ تقریباً 97% قرضوں سے حاصل کیا جائے گا۔ یعنی آئندہ آنے والے سالوں میں ان قرضوں پر سود اور اصل رقم کی واپسی ایک بڑا چیلنج ہوگی ۔

ان اعدادوشمار کی روشنی میں اگر بجٹ کے اغراض ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ادائیوں میں توازن کو درست سمت میں رکھنے کے لیے حکومت کا اقدامات بہتر نظر آتے ہیں لیکن کیا یہ بجٹ غربت، مہنگائی، بیروزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے گا اور عام آدمی کے لیے اس میں کیا ہے تو اس بار حکومت نے کم ازکم تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، دوسری طرف کاربن لیوی کے نفاذ کے بعد پیٹرول 2.5 روپے فی لیٹر مہنگا ہوجائے گا۔

مڈل کلاس طبقہ جو ملکی آبادی کے بڑے حصہ پر مشتمل ہے۔ اس کے مسائل سستی رہائش، پانی اور بجلی کی فراہمی ہے جس کے لیے خاطر خواہ پالیسی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح انتہائی غریب اور پس ماندہ افراد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے پروگرام وقتی ضروریات کی فراہمی کے لیے تو ٹھیک ہوسکتے ہیں لیکن طویل مدت کے لیے ضروری ہے کے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ صنعتوں کی ترقی کے لیے مسابقت کو فروغ دیا جائے۔ امن و امان قائم کیا جائے۔ چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا پائے دار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا روس ایران کو ایس 400 دفاعی نظام فراہم کرےگا؟ کریملن کا مؤقف آگیا
  • اخراجات میں 17 فیصد کمی کے باوجود ریاستی اداروں کے بجٹ میں اضافہ
  • پی آئی اے نے قطر، بحرین، کویت اور دبئی کا فضائی آپریشن منسوخ کر دیا
  • پی آئی اے کا پاکستان سے قطر، بحرین، کویت اور دبئی کا فضائی آپریشن منسوخ
  • وفاقی بجٹ 2025-26 کا اقتصادی منظرنامہ
  • رافیل بمقابلہ جے 10 سی عالمی دفاعی صنعت میں تبدیلی کا اشارہ بن گیا
  • اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے باوجود اسپیکر قومی اسمبلی کا حیران کن اقدام
  • پنجاب بھر میں 1302 ٹریفک حادثات میں 15 افراد جاں بحق ،1551 زخمی
  • قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی کفایت شعاری، 3ارب روپے قومی خزانے میں واپس
  • ملک میں تیل و گیس کی یومیہ پیداوار میں اضافہ