بلوچستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب ہو گئی۔
بلوچستان میں جاری دہشت گردی میں خواتین خود کش حملہ آوروں کا استعمال دہشت گردوں کی ذہنیت کا واضح عکاس ہے ۔ ذرائع کے مطابق خواتین کےخود کش حملوں میں اب تک معصوم شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں خواتین کو ڈھال بنا کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو سرانجام دیتی ہیں۔ خواتین خودکش بمباروں کے استعمال کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سکیورٹی جانچ پڑتال سے بچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کیوں کہ خواتین کو کم مشکوک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دہشتگردوں میں شمولیت کے لیے موزوں ہدف بن جاتی ہیں۔
دہشتگرد تنظیمیں منظم طریقہ کار کے تحت خواتین کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے لیے ہدف بناتی ہیں۔ دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور جال میں پھنسا لیتے ہیں۔دہشت گرد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کمزور نوجوان خواتین کی بھرتی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اور آن لائن حربے دہشتگردی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کی جانب سے نفسیاتی حربے اور بلیک میلنگ خواتین کو مجبور کرنے کے عام ہتھکنڈے ہیں۔ دہشتگردوں کی جانب سے خواتین کی جذباتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں دھکیلا جاتا ہے۔ اسی طرح معاشی مسائل اور سماجی تنہائی نوجوان خواتین کو دہشتگردوں کے لیے آسان ہدف بنا دیتی ہیں۔
دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور انہیں استحصال کے جال میں پھنسا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا دہشت گردوں کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بن چکا ہے جو کمزور خواتین کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔خواتین کو جذباتی بلیک میلنگ اور دھوکا دہی پر مبنی تعلقات کے ذریعے انتہا پسندی میں دھکیلا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق روشن مستقبل کا وعدہ اکثر انتہا پسندی اور جبر کے بھیانک خواب میں بدل جاتا ہے۔بی ایل اے اور دیگر انتہا پسند گروہ اقتصادی مشکلات اور سماجی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر خواتین کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتے ہیں۔
بلوچستان میں خودکش بمبار خواتین میں شاری بلوچ، ماہل بلوچ اور عدیلہ بلوچ جیسی خواتین دہشتگردوں کی آلہ کار بن چکی ہیں۔ بی ایل اے کے کارندے تعلیم یافتہ خواتین کو خودکش مشنز کے لیے منظم طریقے سے ہدف بناتے ہیں۔عدیلہ بلوچ بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں جودہشتگردوں کے ایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھیں۔
ذرائع کے مطابق عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے آن لائن جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا۔ عدیلہ بلوچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا، جہاں ان کے جذبات سے کھیلا گیا اور انہیں پھنسایا گیا۔ عدیلہ بلوچ کو خودمختاری اور روشن مستقبل کے خواب دکھا کر اسے دہشتگردوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ بی ایل اے نے عدیلہ بلوچ کی ذاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اسے دہشت گردی میں ملوث کیا۔ عدیلہ بلوچ، جو کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں، دہشتگردوں کےایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھی۔
خواتین خودکش بمباروں کےحملوں میں اب تک پاکستانی شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اوربلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کا ہدف سماجی طور پر الگ تھلگ، مالی مشکلات کا شکار یا اخلاقی مسائل میں الجھی ہوئی خواتین ہوتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق عدیلہ بلوچ کی کہانی، دہشتگردوں سےمتاثرہ بلوچ خاتون سے زندہ بچ جانے والی خاتون تک کے سفر کی کہانی ہے ۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل گرفتار کی گئی عدیلہ بلوچ نے پریس کانفرنس میں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات کیے تھے۔ عدیلہ بلوچ نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے۔ میں غلط راستے پر چل رہی تھی، مجھے بہکایا گیا تھا۔ دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔
عدیلہ بلوچ نے کہا تھا کہ وہ اب دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں اور نوجوانوں کو محتاط رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
دوسری جانب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی منصوبہ بند خودکش حملوں کو کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔ وہ خواتین خودکش بمبار جو خود کو دھماکے سے اڑانے سے باز رہیں یا بازیاب ہوئیں، انہیں عام شہریوں کی طرح معاشرے میں قبول کیا گیا ہے۔
دفاعی و نفسیاتی ماہرین کے مطابق انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار آگاہی پھیلانا ہے تاکہ ذہنی تبدیلی کو روکا جا سکے۔آگاہی اور کھلی بات چیت انتہا پسندی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم اور خاندانی تعاون دہشتگردوں کیخلاف سب سے مضبوط رکاوٹ ہیں۔ خواتین کو ترغیب دی جانی چاہیے کہ وہ ہدف بننے کی صورت میں اپنے خاندان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد حاصل کریں۔ تعلیم اور خاندانی حمایت دہشت گردوں کی سازشوں اور بلیک میلنگ کے خلاف سب سے مضبوط دفاع ہیں۔
سوشل میڈیا پر جعلی دوستیاں اکثر حقیقی زندگی میں دہشت گردوں کے دھوکا دہی اور جبر کا باعث بنتی ہیں۔ دہشت گرد نیٹ ورکس میں پھنسی خواتین شدید نفسیاتی صدمے کا سامنا کرتی ہیں۔خاندانوں کو چوکنا رہنا چاہیے اور اپنے پیاروں کو انتہا پسندوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے جذباتی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔خواتین کی حقیقی خودمختاری، تعلیم اور ثابت قدمی میں مضمر ہے، انتہا پسندوں کے جھوٹے وعدوں میں نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق نوجوان خواتین دہشت گردوں کے بلوچستان میں دہشتگردوں کی دہشتگردوں کے انتہا پسندی سوشل میڈیا بلیک میلنگ عدیلہ بلوچ خواتین کو بی ایل اے کرتی ہیں کرتے ہیں گردوں کی کے ذریعے جاتا ہے جال میں کے لیے
پڑھیں:
دوران پرواز جہاز کی چھت گر پڑی، مسافر ہاتھوں سے تھامنے پر مجبور
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکہ میں ایوی ایشن کی دنیا ایک اور حیرت انگیز واقعے سے لرز اٹھی، جب اٹلانٹا سے شکاگو جانے والی ڈیلٹا ایئر لائن کی پرواز میں دورانِ پرواز اچانک جہاز کی چھت گر گئی۔ مسافروں کو اپنی جان بچانے کے لیے چھت کو اپنے ہاتھوں سے تھامنا پڑا، تاکہ وہ مکمل طور پر نہ گر جائے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً 30 ہزار فٹ کی بلندی پر متعدد مسافر اپنے ہاتھ اوپر کر کے چھت کی پینل کو سنبھال رہے ہیں۔ اس واقعے کی ویڈیو ٹک ٹاک پرلوکاس مائیکل پینے نے شیئر کی، جسے 1.95 لاکھ سے زائد ویوز مل چکے ہیں۔
لوکاس مائیکل پینے نے ویڈیو کے ساتھ لکھا، ’میرا دوست اس ڈیلٹا فلائٹ پر تھا جب جہاز کی چھت نیچے گر گئی۔ اٹینڈنٹس نے آخرکار ڈکٹ ٹیپ سے اسے ٹھیک کیا، لیکن کافی دیر تک مسافروں کو ہی اسے سہارا دینا پڑا۔‘
View this post on InstagramA post shared by pete koukov☔️ (@eggxit)
ڈیلٹا ایئر لائن کے ترجمان نے نیویارک پوسٹ کو بتایا، ’ہم اپنے صارفین کی صبر و تحمل اور تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم تاخیر پر معذرت خواہ ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بوئنگ 717 طیارے کی اندرونی پینل کو دوبارہ اپنی جگہ پر لگا دیا گیا تھا تاکہ مسافروں کو مزید اس کو تھامنے کی ضرورت نہ پڑے۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ متاثرہ مسافروں کو تقریباً دو گھنٹے کی تاخیر کے بعد متبادل جہاز سے شکاگو روانہ کیا گیا۔
تاہم سوشل میڈیا صارفین اور پرواز میں موجود افراد نے ڈیلٹا ایئر لائن پر سخت تنقید کی۔ ایک خاتون نے تبصرہ کیا، ’میں اس پرواز میں آگے کی سیٹ پر بیٹھی تھی، یہ واقعی بہت خوفناک تجربہ تھا۔‘
ایک اور صارف نے لکھا، ’ڈیلٹا نے صرف 10 ہزار میل (یعنی تقریباً 100 ڈالر) کی پیشکش کی، جب کہ ہمیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑا اور دوسرا جہاز لینا پڑا۔‘
مزاحیہ انداز میں ایک صارف نے کہا، ’اسی لیے میں گاڑی میں سفر کرتا ہوں۔‘
یہ واقعہ واحد نہیں، بلکہ حالیہ دنوں میں کئی ہوائی حادثات پیش آئے ہیں۔
15 اپریل کو فلوریڈا سے پورٹو ریکو جانے والی فرنٹیئر ایئر لائنز کی پرواز میں لینڈنگ کے دوران ایک پہیہ ٹوٹ گیا، جس کے بعد مسافروں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔
اسی طرح، فروری میں ٹورانٹو کے پیئرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک ڈیلٹا طیارہ لینڈنگ کے دوران الٹ گیا تھا۔
یہ حالیہ واقعہ ایوی ایشن کے بڑھتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے، جن سے مسافر عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈیلٹا ایئر لائن پر دباؤ ہے کہ وہ مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مزید مؤثر اقدامات کرے، اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کرے۔