جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ، ’مکمل ڈی ملٹرائزیشن‘ کا اسرائیلی مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ رواں برس جنوری میں طے پانے والی غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کے لیے اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ غزہ کو 'مکمل طور پر غیر مسلح‘ کیا جائے اور حماس کو وہاں سے نکالا جائے۔
اسرائیل کا غزہ کو اشیائے صرف کی ترسیل کی معطلی کا اعلان
اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت
یروشلم میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سار کا کہنا تھا، ''ہمارا دوسرے مرحلے پر اتفاق رائے نہیں ہے۔
ہم غزہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، حماس اور اسلامی جہاد کو نکالا جائے اور ہمارے یرغمالی ہمیں واپس کیے جائیں۔(جاری ہے)
اگر وہ اس پر اتفاق کرتے ہیں تو ہم کل ہی عملدرآمد شروع کر سکتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں طے پانے والا غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر عملدرآمد 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس کی مدت یکم مارچ کو ختم ہو گئی۔
غیر مسلح ہونا 'ریڈ لائن‘ ہے، حماس رہنماادھر حماس کے ایک رہنما سامی ابو زھری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے میں توسیع کے لیے غیر مسلح ہونا ان کی تحریک اور دیگر فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے لیے ایک سرخ لکیر ہے: ''تحریک کے ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی بھی بات بے وقوفی ہے۔ تحریک کے ہتھیار حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے لیے ایک سرخ لکیر ہیں۔
‘‘ابو زھری کا یہ بیان اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار کی طرف سے غزہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کے کچھ دیر بعد سامنے آیا۔
جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ، اسرائیل کا متبادل منصوبہاسرائیل نے رواں ہفتے ایک نیا امریکی جنگ بندی منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہ منصوبہ اس سے مختلف ہے، جس پر اسرائیل اور حماس نے جنوری میں اتفاق کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے 'وٹکوف پروپوزل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی اور صرف اتنا کہا ہے کہ اسرائیل جو بھی اقدام کرے گا وہ اس کی حمایت کرتا ہے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہو گا کیونکہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ ابھی طے نہیں ہوا ہے۔نئے منصوبے کے تحت حماس کو جنگ بندی میں توسیع اور دیرپا جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے وعدے کے بدلے اپنے باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔
اسرائیل نے مزید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا کوئی ذکر نہیں کیا جو پہلے مرحلے کا ایک اہم جزو ہے۔
حماس نے اسرائیل پر موجودہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس میں دونوں فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی قیدیوں کی واپسی، غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا اور دیرپا جنگ بندی کے بدلے باقی یرغمالیوں کی واپسی پر بات چیت کریں۔ لیکن کوئی ٹھوس بات چیت نہیں ہوئی ہے۔
اتوار دو مارچ کو اسرائیل نے غزہ کی 20 لاکھ آبادی کے لیے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر اشیا کی فراہمی روک دی تھی اور دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے نئی تجویز کو قبول نہیں کیا تو 'اضافی نتائج‘ برآمد ہوں گے۔
حماس اور اس کے اتحادیوں نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں 1215 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس نے اس حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا۔ غزہ میں اب بھی 62 یرغمالی موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 35 ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 48,319 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
ا ب ا/ا ا، ر ب (اے ایف پی، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنگ بندی کے کے لیے غزہ کو
پڑھیں:
چین کا اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل
چین نے اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کی جانب سے لگائے گئے اُس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بعض ممالک، بشمول چین، اسرائیل کے خلاف اطلاعاتی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔
چین کے سرکاری اخبار’’گلوبل ٹائمز‘‘ کے مطابق اسرائیل میں چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کے الزامات نہ صرف بنیادی طور پر غلط ہیں بلکہ چین،اسرائیل تعلقات کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ چین کو ان الزامات پرگہری تشویش ہے اور وہ ان کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ چینی سفارتخانے نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کو چین سے جوڑنا درست نہیں، اور نہ ہی یہ چین کی سرکاری پالیسی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ ردعمل اُس وقت سامنے آیا جب وزیرِاعظم نیتن یاہو نے حالیہ دنوں میں یہ دعویٰ کیا کہ بعض عالمی طاقتیں، خاص طور پر چین، مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
چینی سفارتخانے نے اسرائیلی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ غزہ میں جاری انسانی بحران کو محض فوجی طاقت سے حل کرنے کے بجائے سیاسی دانشمندی اور سفارتی حکمتِ عملی اپنائے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ دنیا بھر میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، جسے اسرائیل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
بیان کے آخر میں چین نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں فوجی کارروائیاں بند کر کے فوری اور مکمل جنگ بندی پر رضامند ہو، تاکہ علاقے میں تباہ کن انسانی بحران کو روکا جا سکے۔