رمضان المبارک نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں ہر نیکی کا اجر و ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان میں عبادت، ریاضت، ایثار و قربانی اور اللہ کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرتا ہے تاکہ روز قیامت اس کی بخشش کی راہ ہموار ہو سکے۔
تاریخ کے اوراق میں حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ شعبان المعظم کی آخری تاریخ کو رسول کریمؐ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؐ نے رمضان المبارک کی اہمیت و عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اسے دوسرے زمانے کے فرائض کے برابر اس کا اجر ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرائض کے برابر ملے گا۔
یہ صبرکا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضافہ ہوتا ہے جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کروایا تو یہ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبے کی روشنی میں دیکھیں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں چیزیں رمضان المبارک کی پہچان ہیں۔
اس جہان ایک طرف اہل ثروت اور صاحب خیر افراد انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ روزہ داروں کو افطار کروانا، غریبوں، ناداروں، بے کسوں، بے سہاروں اور مساکین میں صدقہ و زکوٰۃ خیرات اور راشن کی تقسیم کرکے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتے ہیں تو دوسری طرف بدنیت، بداعمال، ضمیر فروش، ذخیرہ اندوز، منافع خور اور چور بازاروں کے غیر اخلاقی، غیر انسانی اور منافقانہ طرز عمل کی وجہ سے غریب آدمی کا اس ماہ مقدس میں جی بھر کے استحصال کیا جاتا ہے۔
نیکیاں کمانے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے بجائے لوگ بداعمال لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں، دانستہ اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں غربت، افلاس، تنگدستی، بھوک، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور دیگر بہت سے عوامل نے مل کر ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ایک عزت دار اور خود دار آدمی کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔
ایسے افراد نہ کسی کے آگے دست سوال بڑھاتے ہیں اور نہ کسی سے امید لگاتے ہیں۔ ان کا واحد سہارا اللہ کی ذات ہوتی ہے اور زمین پر وقت کے حاکم ہی ان کی داد رسی کر سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں گرانی اور مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں، چور بازاروں اور منافع خوروں کی عید سے پہلے عیدی اور چاندی ہو جاتی ہے۔ پھل فروٹ جو افطاری کا لازمی جز ہوتے ہیں ان کی قیمتوں کو تو گویا ایسے سنہرے پَر لگ جاتے ہیں کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ غریب اور عام آدمی کے لیے افطار کے لیے پھل فروٹ خریدنا ممکن نہیں رہتا ہے۔
ہماری وزارت خزانہ نے رمضان المبارک میں مہنگائی بڑھنے کی ’’خوش خبری‘‘ سناتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں 34 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ چینی و دیگر اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے اور مناسب قیمت پر ضروریات زندگی کی چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی مرتب کی جائے۔
ہر سال رمضان المبارک میں مہنگائی کا ایک طوفان آتا ہے ،برسر اقتدار حکمران مہنگائی کم کرنے ، ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور مہنگائی مافیا کے خلاف کارروائی کرنے اور عوام کو ارزاں نرخوں پر اشیا کی فراہمی یقینی بنانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ اخباری بیانات، انٹرویوز میں گرانی پر کنٹرول کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ کوئی حکومتی ادارہ اور متعلقہ محکمہ مہنگائی کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا اور رمضان کا مہینہ گزر جاتا ہے،کوئی اپنی ذمے داری قبول نہیں کرتا کہ ان کی کوتاہی و لاپرواہی کی وجہ سے عوام کو مہنگائی کا عذاب جھیلنا پڑا۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ میں ان کے وزیر خزانہ عبدالناصر ہمتی کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرتے ہوئے انھیں ان کے عہدے سے اس لیے برطرف کردیا کہ وہ ایران میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئے، بعینہ ایرانی کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کو بھی کنٹرول کرنے میں بھی ناکام رہے۔
نتیجتاً انھیں پارلیمنٹ میں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں کسی بھی شعبے میں بڑے سے بڑا حادثہ ہو جائے، مہنگائی سے غریبوں کا کچومر نکل جائے یا قرضوں کے بوجھ سے معیشت ڈوب جائے یا قومی کرنسی زوال کا شکار ہو جائے متعلقہ وزیر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کی نوکری اور عہدہ برقرار رہتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ صرف وزیر اعظم کا مواخذہ کرتی ہے۔ وزرا کے مزے ہیں، حکومتی سطح پر سخت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہی پاکستان میں مہنگائی و گرانی کا طوفان اٹھا ہوا ہے۔ حکومت کو مہنگائی ختم کرنے کے لیے صرف زبانی کلامی دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تب ہی غریب اور عام آدمی کو فائدہ ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک مہینے میں کا مہینہ مہینہ ہے جاتا ہے اللہ کی کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
ریاض احمدچودھری
مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔