حریت کانفرنس کا اراضی اور کاروبار پر مودی حکومت کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر اظہار تشویش
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
غیر مقامی کارپوریٹ کمپنی کی مقبوضہ علاقے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حریت ترجمان کا کہنا تھا کہ ان ہتھکنڈوں سے مقامی اسٹیک ہولڈرز کا عمل دخل کم کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اراضی اور کاروبار پر غیر کشمیری ہندوئوں کے بڑھتے ہوئے کنٹرول پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد جموں و کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بگاڑنا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں بڑے ہوٹلوں کی تعمیر کے نام پر غیر مقامی ہندوئوں کی طرف سے پہلگام جیسے مشہور سیاحتی مقامات میں بڑے پیمانے پر اراضی کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قابض انتظامیہ کی ہدایت پر پہلگام ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے مقامی اداروں کو بے اختیار بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیراتی منصوبوں کی منظوری میں مقامی حکام کو نظرانداز کرنا خاص طور پر تشویشناک ہے، جس سے مقبوضہ علاقے میں طرز حکمرانی اور قانونی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کے مودی حکومت کے مذموم ایجنڈے کی عکاسی ہوتی ہے۔ غیر کشمیری ہندوئوں کو اراضی کی فروخت کی مخالفت کرنے والے مقامی سرکاری عہدیداروں کا یا تو تبادلہ کر دیا جاتا ہے یا انہیں او ایس ڈی بنایا دیا جاتا ہے۔
حریت ترجمان نے پہلگام ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسر کے حالیہ تبادلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غیر کشمیری ہندوئوں کو اراضی کی منتقلی پر اعتراض کرنے پر انہیں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاست ہریانہ کی ایک کمپنی نے، جے کے سیمنٹ کے ذریعے مقامی سیفکو سیمنٹ انڈسٹری میں 70فیصد حصص خریدے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کمپنی کشمیری عوام کو گمراہ کرنے کے لیے "جے اینڈ کے سیمنٹ” کا نام استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی زیر ملکیت جے کے سیمنٹ کمپنی کو جان بوجھ کر بھاری مالی نقصانات کے ذریعے خسارے کا شکار کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق قابض انتظامیہ قرضوں میں جکڑی ہوئی اس کمپنی کو اڈانی کی امبوجا سیمنٹ کو فروخت کرنے کیلئے مذاکرات کر رہی ہے۔ حریت ترجمان نے خبردار کیا کہ بڑی بھارتی کمپنیوں کی طرف سے سیمنٹ انڈسٹری جیسے مقامی اداروں اور صنعتوں پر کنٹرول اور اڈانی کے امبوجا سیمنٹ کے ساتھ ممکنہ معاہدے سے مقامی صنعتوں پر قبضے کی عکاسی ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف مقامی معیشت کو خطرات لاحق ہیں بلکہ کشمیری عوام کی پسماندگی میں بھی اضافہ ہو گا۔
ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے کشمیر میں جندال گروپ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی رہنما اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی براہ راست رہنمائی میں کمپنی نے 17فروری 2023ء کو پلوامہ میں ایک نئے اسٹیل پروسیسنگ یونٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اسی طرح جے ایس ڈبلیو گروپ کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر سجن جندال نے 31 جنوری کو وزیراعلیٰ عمر عبداللہ سے ملاقات کے بعد گلمرگ میں بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ مقبوضہ علاقے میں بی جے پی آر ایس ایس ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ غیر مقامی کارپوریٹ کمپنی کی مقبوضہ علاقے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ہتھکنڈوں سے مقامی اسٹیک ہولڈرز کا عمل دخل کم کیا جا رہا ہے۔حریت ترجمان نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی منظم خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کو یقینی بنائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقبوضہ علاقے میں انہوں نے کہا کہ حریت ترجمان
پڑھیں:
بڑھتے زرمبادلہ کے ذخائر، بہتر کریڈٹ ریٹنگ، مہنگائی میں کمی اہم کامیابیاں: وزیر خزانہ
واشنگٹن+اسلام آباد (آئی این پی+نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے پاکستان کیلئے عالمی بنک کے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کی منظوری پر عالمی بنک کا شکریہ ادا کیا اور کہا ہے کہ حکومت امریکہ سے تجارتی خسارے کو حل کرنے کیلئے بات چیت چاہتی ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی واشنگٹن میں عالمی بنک گروپ/ آئی ایم ایف کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مسٹر مارٹن رائزر سے ملاقات ہوئی۔اس موقع پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر جلد عملدرآمد اور مخصوص شعبوں میں مکمل کئے جانے والے منصوبے جلد طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ملاقات میں روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ محمد اورنگزیب نے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں دور کرنے اور کام کی رفتار تیز کرنے کیلئے ایک موثر نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ڈوئچے بنک کے وفد سے بھی ملاقات کی اور معاشی صورتحال اور مالی و مانیٹری پیشرفت سے آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ خزانہ و سینیٹر محمد اورنگزیب نے واشنگٹن ڈی سی میں موڈیز کی کمرشل ٹیم سے بھی ملاقات کی۔ وزیر خزانہ نے ٹیم کو پاکستان کے معاشی منظر نامے پر بریفنگ دی۔ دریں اثنا وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں سعودی فنڈ برائے ترقی کے سی ای او سلطان بن عبدالرحمان المرشد سے ملاقات کی۔ سلطان بن عبدالرحمان المرشد سے ملاقات کے دوران وزیرخزانہ نے سعودی آئل سہولت کے تحت واجب الادا رقوم کی فوری ادائیگی کی درخواست کی اور ساتھ ہی سعودی فنڈ سے کراچی کوئٹہ این-25 منصوبے کے لیے مالی معاونت کی درخواست بھی کی۔ دوسری جانب اٹلانٹک کونسل تقریب سے خطاب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت امریکہ سے تجارتی خسارے کو حل کرنے کیلئے تعمیری بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال، اصلاحاتی منصوبوں اور حکومتی ترجیحات پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری، اور مالی خسارے میں کمی کو اہم کامیابیاں قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، اصل مقصد پائیدار ترقی اور اصلاحات کا تسلسل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10.6 فیصد تک پہنچنے کی امید ہے۔ قرضوں کی موثرمینجمنٹ سے تقریباً دس کھرب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی بھاری بھرکم انفارمل معیشت اور لگ بھگ نوے کھرب روپے مالیت کے نوٹوں کی گردش کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بنک کے 500 ملین ڈالر، ورلڈ بنک کے دس سالہ شراکتی فریم ورک، اور آئی ایم ایف کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر کے نئے پروگرام کو مثبت پیشرفت قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سٹیٹ بنک کے تحت پاکستان گرین ٹیکسونومی فریم ورک تیار کر رہا ہے جس کے ذریعے گرین بانڈز، گرین سکوکس، اور پہلا پانڈا بانڈ متعارف کرایا جائے گا۔ محمد اورنگزیب کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی کارپوریٹ لیڈرز سے اہم ملاقات بھی ہوئی۔وزیرخزانہ اورنگزیب نے عالمی بنک اور آئی ایم ایف سمیت ہونے والے 13ویں وزرائے خزانہ وزارتی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے، اقتصادی ترقی کے حصول پر غور کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ ماحولیاتی اقدامات کے لئے وزرائے خزانہ کے اتحاد میں 90 سے زائد ممالک اور 25 اجارہ جاتی پارٹنرز شامل ہیں۔