WE News:
2025-09-18@13:43:00 GMT

بھارت: تاریخی مہا کمبھ میلہ میں 60 کروڑ لوگوں کی شرکت

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

بھارت: تاریخی مہا کمبھ میلہ میں 60 کروڑ لوگوں کی شرکت

بھارتی ریاست اترپردیش میں منعقدہ حالیہ مہا کمبھ میلے میں اندرون و بیرون ملک سے 60 کروڑ لوگوں نے شرکت کی ہے، 144 سال بعد ہونے والا یہ روحانی اجتماع دنیا بھر کے لوگوں کو باہم روحانی رشتے میں جوڑتا ہے۔

کمبھ میلہ انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر پریاگ راج (سابقہ الہ آباد) میں دریائے گنگا و جمنا کے سنگم پر ہر 12 سال کے بعد منعقد ہوتا ہے، یہ عرصہ سورج کے گرد سیارہ مشتری کا ایک چکر مکمل ہونے کی علامت ہے۔ مہا کمبھ میلہ 144 سال کے بعد ایسے 12 چکر مکمل ہونے پر منایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مہاکمبھ میلے میں ہار بیچنے والی مونالیزا نے ایک ایونٹ میں شرکت کا کتنا معاوضہ لیا؟

ہندو مذہب کے اس اہم ترین تہوار کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) نے 2017 میں دنیا کے ‘غیرمادی ثقافتی ورثے’ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

حالیہ مہا کمبھ میلے کے انعقاد میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی مدد فراہم کی تھی، 13 جنوری کو شروع ہونے والا یہ اجتماع 45 روز جاری رہنے کے بعد 26 فروری کو ختم ہوا۔

ثقافتی ورثے کی زندہ مثال

انڈیا میں یونیسکو کے ڈائریکٹر ٹم کرٹس نے بھی اس میلے میں شرکت کی اور دریائے گنگا میں اشنان کیا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا میں سب سے بڑا روحانی اجتماع ہے جو ثقافتی ورثے کی منفرد جھلک پیش کرتا ہے۔ یہاں آ کر ایک منفرد توانائی اور ماحول کو محسوس کیا جاسکتا ہے جہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے اور روحانیت کا شاندار تجربہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’وساکھی میلہ‘: دنیا بھر سے سے 45 ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد متوقع

’اس میلے نے سکھوں کی روحانی روایات کو نسل در نسل برقرار رکھا ہے‘

انہوں نے کہا کہ اس میلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقافت محض عمارتوں کا نام نہیں بلکہ یہ باہمی ربط اور لوگوں کی روایات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر منعقدہ اس میلے میں ناصرف انڈیا کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں بلکہ یہ پوری دنیا کے لوگوں کو باہم جوڑتا اور انہیں گہری قربت اور تعلق کا احساس دلاتا ہے۔ یہ زندہ ثقافتی ورثے کی عظیم مثال ہے جس نے روحانی روایات کو نسل در نسل برقرار رکھا ہے۔

خوش قسمتی کا موقع

سپین سے اس میلے میں شرکت کے لیے انڈیا آنے والے ایگوزکی کا کہنا ہے کہ انہیں اس اجتماع میں شامل ہوکر بہت خوشی ہوئی۔ 144 سال کے بعد سیارہ مشتری کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونا زمین، انسانوں اور تمام دیگر مخلوقات کے لیے بہت اہم وقت ہے۔

’لوگ محض نہانے نہیں آتے بلکہ یہ ایک مذہبی غسل ہے‘

مہا کمبھ میلے کے موقع پر معمول سے ہٹ کر روحانی تقریبات بھی ہوئیں جن میں متعدد خصوصی اشنان بھی شامل تھے، انڈیا کے شہر کانپور سے آنے والے ایک زائر کا کہنا تھا کہ مہا کمبھ میلہ لوگوں کے لیے خوش قسمتی لایا ہے، یہاں لوگ محض نہانے نہیں آتے بلکہ یہ ایک مذہبی غسل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’وساکھی میلہ‘: دنیا بھر سے سے 45 ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد متوقع

چیک ریپبلک سے آنے والے ایک شخص نے اشنان کے تجربے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ دو مرتبہ دریائے گنگا کے پانی میں ڈبکی لگانے کے بعد وہ اپنے اندر تبدیلی محسوس کررہے ہیں۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے جیسے گنگا نے انہیں اپنی حقیقی ذات سے روشناس کرا دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اترپردیش اقوام متحدہ بھارت پریاگ راج مہا کمبھ میلہ یونیسیف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اترپردیش اقوام متحدہ بھارت پریاگ راج مہا کمبھ میلہ یونیسیف مہا کمبھ میلہ ثقافتی ورثے کمبھ میلے میلے میں اس میلے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA)خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن
  • فلم “731” لوگوں کو کیا بتاتی ہے؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، سوشل میڈیا پر لوگوں کی خوشی دیدنی
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا، عطاء اللہ تارڑ
  • مدد کے کلچر کا فقدان