Express News:
2025-04-25@11:46:48 GMT

شہر میں پچاس نئے پارک تعمیر کیے جارہے ہیں، میئر کراچی

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

کراچی:

میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ شہر میں پچاس نئے پارک تعمیر کیے جارہے ہیں، ترقیاتی کام تکمیل کے مراحل میں ہیں، ضلع غربی کے ٹاؤنز کو پانی کی کمی کا سامنا تھا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حب ریورسے 100 ایم جی ڈی پانی کی نہر نکالی گئی ہے۔

ان خیالات کا اظہار میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے یوسی۔5 رشید آباد بلدیہ ٹاؤن میں نو تعمیر شدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو فیملی پارک کا افتتاح کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما، ٹاؤن اور یوسی کے چیئرمین، ممبران اور پارٹی کے مقامی رہنما بھی موجود تھے.

میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہاکہ کراچی کے ساتوں اضلاع میں بلا امتیاز و تفریق کام کر رہے ہیں، کراچی کے عوام کو مسلسل ترقیاتی منصوبے مکمل کرکے دیں گے، بلدیہ ٹاؤن کے عوام نے ہم پر اعتماد کیا ہے تو ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جن نئے پچاس پارک کی تعمیر کا اعلان کیا گیا تھا، اس پارک کا افتتاح میرے اس اعلان کی کڑی ہے، پارک کی جگہ پر کبھی کچرا ہوا کرتا تھا، آج اس جگہ سبزہ ہے، یہ پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو کا وژن ہے، اب سے کچھ دن بعد ماڑی پور روڈ پر فٹ بال گراؤنڈ بنانے جا رہے ہیں، اس گراؤنڈ کا ٹینڈر بھی ہوچکا ہے، کام ہوتا ہوا سب کو نظر آرہا ہے، آج بلدیہ عظمیٰ کراچی کام کر رہی ہے جبکہ ماضی میں اختیارات کا رونا رویا جاتا تھا، سابق میئر وسیم اختر صرف میڈیا پر آکر فائلیں پھینکا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہر شہری چاہتا ہے کہ ہر چیز ان کے گھر کے سامنے ملے جس کے باعث تجاوزات قائم ہوتی ہیں، ٹریفک جام ہوتا ہے جس میں سب شہری پھنستے ہیں، ہمیں ٹھیلے والوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، قانون کے مطابق ضبط کیے گئے ٹھیلے پندرہ دن میں واپس کرنا ہوتے ہیں جب ہم ٹھیلے واپس کرتے ہیں تو یہی ٹھیلے دوبارہ لگا لیے جاتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ لوگ ان کے ٹھیلوں سے خریداری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 20 ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل اس پارک میں بچوں کے لیے بھی تفریحی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں، یہ ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن پیپلزپارٹی کا وژن ہے کہ ہمیں کراچی کے ہر ہر کونے میں بلدیاتی سہولتیں مہیا کرنی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میئر کراچی

پڑھیں:

ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات

بلوچستان صدیوں سے پسماندہ علاقہ رہا ہے۔ سندھ کا دارالحکومت کراچی بلوچستان کے شہر ضلع لسبیلہ سے متصل ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کا فاصلہ 631 کلومیٹر ہے۔ بلوچستان کے سرحدی شہر حب کے بعد دشوار گزار پہاڑی راستہ شروع ہوجاتا ہے، یہ ایک قدیم راستہ ہے۔ کراچی سے کوئٹہ کے راستے پرکئی شہر آباد ہیں جن میں بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر خضدار بھی شامل ہے۔

سابق صدر جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں جب پاکستان، ایران اور ترکی آر سی ڈی معاہدے میں منسلک ہوئے تو آر سی ڈی ہائی وے کے نام پر ایک چھوٹی سی سڑک تعمیر ہوئی، یوں کراچی سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ افغانستان اور ایران جانے کے لیے بھی یہ سڑک اہم بن گئی، مگر یہ سڑک یک طرفہ ہے، اس لیے ٹریفک بڑھنے کے ساتھ اس سڑک پر حادثات کی اوسطاً تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی۔

اس سڑک کے اطراف میں کئی سابق وزراء اعلیٰ کے آبائی گاؤں بھی ہیں۔ ماضی میں وزرائے اعلیٰ نے اس سڑک کو توسیع دینے اور جدید ہائی وے میں تبدیل کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔ ایسے ہی اعلانات وفاقی وزراء اور برسر اقتدار آنے والے وزرائے اعظم نے بھی کیے۔ بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بھی اس سڑک کی صورتحال پر توجہ دلائی۔ کبھی اس سڑک کی توسیع کے لیے فنڈز مختص کرنے کے اعلانات بھی ہوئے مگر عملی طور پر یہ سڑک خونی سڑک ہی رہی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورِ اقتدار میں سی پیک کا بڑا منصوبہ شروع ہوا۔

سی پیک کے جاری کردہ لے آؤٹ کے تحت چین کو بلوچستان کی تمام اہم سڑکوں کو جدید سڑکوں میں تبدیل کرنا تھا۔ سی پیک کے تحت کراچی سے گوادر تک ہائی وے تعمیر ہوئی۔ گوادر، خضدار اور رتوڈیرو سے چین تک ایک جدید ترین ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال جو سی پیک کو گیم چینجر قرار دیتے ہیں وہ بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ بلوچستان میں اب سڑکوں کا جال بچھ جائے گا مگر پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔

اس حکومت کے وزراء بھی یہ نعرے لگاتے رہے ۔ اس دوران بلوچستان میں بد امنی بڑھ گئی۔ سڑکوں کا بند ہونا اور بلوچستان کے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت آگئی۔ اب پھر پروفیسر احسن اقبال نے یہ بیانیہ اختیار کیا ۔ یہ خبریں شائع ہونے لگیں کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں سی پیک کے تحت کئی منصوبے مکمل ہوگئے۔

جس پر بلوچستان کے کچھ باشعور افراد کا یہ مفروضہ درست لگنے لگا کہ سی پیک منصوبہ کا دائرہ کار بلوچستان میں مخصوص سڑکوں کی تعمیر تک محدود ہے۔ صدر ٹرمپ کے عالمی معیشت کو تہہ و بالا کرنے والے فیصلوں کی بناء پر تیل کی مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی اور پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑی حد تک کم ہوگئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پیٹرول اور HSP کی قیمتیں 6 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 5 بیرل تک پہنچ گئیں اور بعض ممالک نے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کردی۔

حکومتِ پاکستان نے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بناء پر اس ماہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ حکومت کو اس کمی سے جو فائدہ ہوگا، اس سے بجلی کے بلوں میں کمی کی جائے گی، یوں اس بات کا امکان ہے کہ عام صارف کو چند ماہ تک بجلی کے بلوں میں 6 روپے کا ریلیف ملے گا۔ صدر آصف زرداری نے پیٹرولیم لیوی ترمیمی آرڈیننس جاری کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت پیٹرولیم لیوی آرڈیننس سے ترمیم نمبر پانچ کو نکال دیا گیا اور پیٹرولیم پر لیوی 8 روپے 72 پیسے بڑھا دی گئی۔ پٹرولیم پر لیوی 70 روپے سے بڑھا کر 78 روپے 72 پیسے کردی گئی۔

ڈیزل لیوی پر بھی لیوی بڑھا دی گئی۔ یہ بھی خبر ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پٹرول پر فی بیرل 5 روپے کی لیوی نافذ کی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے عوام کو یہ خوش خبری سنائی کہ حکومت اس بچت کو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کرے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس رقم سے بلوچستان کی بہت سے اہم شاہراہیں تعمیر ہونگی، جن میں چمن،کوئٹہ، قلات، خضدار اورکراچی شاہراہ کی تعمیر شامل ہے اور اس سڑک کو دو رویہ کیا جائے گا۔ اسی رقم سے کچھی کنال کا فیز 2 بھی مکمل کیا جائے گا۔ اسی طرح M-6 اور M-9 کو بھی مکمل کیا جائے گا۔

وزیر اعظم کے اس اعلان کا بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بھرپور خیر مقدم کیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے صرف کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ حکومت نے عام آدمی کو چند ماہ کے لیے بجلی کے بلوں میں جو ریلیف دیا ہے وہ بھی پھیکا پڑ جائے گا۔ بلوچستان کے دانشوروں کا یہ سوال اہمیت اختیارکرگیا ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں بلوچستان کی اہم شاہراہیں شامل نہیں۔ کیا ملک کے دیگر صوبوں میں حکومت نے جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں، اس کے لیے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی منڈیوں میں کمی پر انحصارکیا جاتا ہے۔

بلوچستان کے امور کے ماہر عزیز سنگھور اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت گوادر کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور بلوچستان کو ’’ گیٹ وے‘‘ قرار دیا گیا تھا، مگر بدقسمتی سے سی پیک کے عملی ثمرات کا رخ ر چند دوسرے شہروں کی جانب ہوا، جہاں جدید سڑکیں، انڈسٹریل زونز اور دیگر منصوبے مکمل ہوئے، جب کہ بلوچستان آج بھی بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہے۔

شاہراہ این 25، جو کوئٹہ کو کراچی سے ملاتی ہے، کو ’’ قاتل شاہراہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سڑک نہ صرف خستہ حال ہے بلکہ روزانہ کئی قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو جاتی ہیں، اگر واقعی سی پیک کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی کام ہوئے ہوتے تو این25 جیسے اہم ترین راستے کی حالت زار ایسی نہ ہوتی۔ یہ فیصلہ بذاتِ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ سی پیک کے اعلانات کے باوجود بلوچستان میں زمینی سطح پر کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی بچت کو عوامی ریلیف کے بجائے ایک ایسی سڑک کی مرمت پر خرچ کیا جا رہا ہے، جس کی تعمیر گزشتہ دہائیوں سے نظرانداز کی گئی۔

 بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ نظر اندازکیا گیا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے عوام کو نہ گیس میسر ہے، نہ صاف پانی، نہ تعلیم، نہ صحت اور نہ ہی روزگار۔ اگر سی پیک واقعی ’’ گیم چینجر‘‘ ہوتا تو سب سے پہلے بلوچستان میں تعلیم، صحت، صنعت و حرفت، روزگار اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہوتی۔ مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ بغیر مقامی نمایندوں، ماہرین یا عوامی مشاورت کے ہوتے ہیں۔

یہ رویہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے ۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیانیہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ 2 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات میں رعایت دینے کے بجائے 34 ارب روپے ماہانہ ٹیکس بڑھا دیا۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت نے مارچ میں پیٹرولیم کی مصنوعات 10 روپے اور اپریل میں مزید 10 روپے کا اضافہ کیا، یوں پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 80 روپے تک پہنچ گئی۔

مفتاح اسماعیل حکومت کے اس دعویٰ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ رقم بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پھر عام آدمی کی زندگی درگور ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ہر صورت سڑکیں تعمیر ہونی چاہئیں مگر ایسی ناقص منصوبہ بندی جس سے خود بلوچستان کے عوام میں احساسِ محرومی گہرا ہوجائے اور باقی صوبوں کے غریب عوام اور بلوچستان کے عوام کے درمیان تضادات پیدا ہوجائیں، نقصان دہ رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کاغزہ سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
  • سپر اسٹورز اور سپر  مارکیٹوں میں برانڈڈ اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے کا فیصلہ
  • پہلگام حملے کا الزام بے بنیاد، بھارت جھوٹ پھیلا رہا ہے: مرتضیٰ وہاب
  • ناقص منصوبہ بندی کے نقصانات
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • ہم جنس پرست ہالی ووڈ اداکارہ نے ساتھی اداکارہ سے شادی کرلی
  • کورنگی میں خاتون کا قتل؛ مقتولہ کو پارک کون لیکر آیا؟ ویڈیو سامنے آگئی
  • صنعتوں کو گراؤنڈ رینٹ ادائیگی کے نوٹس کیخلاف میئر کراچی عدالت طلب
  • آسٹریلوی پریزنٹر ایرن ہالینڈ نے کھائی کراچی کی نلی بریانی، ذائقے سے متعلق کیا کہا؟