Express News:
2025-07-27@06:27:29 GMT

انصاف اور خود سوزی

اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT

سینئر وکیل اختر حسین نے جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ ان کے استعفیٰ سے 26 ویں ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات مزید گہرے ہوگئے۔

ادھرلاہور میں ایک بے روزگار شخص کی خود سوزی کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ وہ ایک مقامی کمپنی میں ملازم تھا۔ اسے اور چند ساتھیوں کو مزدور یونین کو متحرک کرنے پر کمپنی نے برطرف کردیا تھا مگر این آئی آر سی نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ملازمت پر بحال کیا تھا مگر کمپنی نے 5 سال سے ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا ہوا تھا۔ خود سوزی کرنے والا شخص اسپتال میں کئی دن تک زندگی کی لڑائی لڑتا رہا لیکن جانبر نہ ہوسکا اور دنیا سے رخصت ہوگیا۔

 سینئر وکیل اختر حسین ایک مارکسی وادی ہیں، وہ نوجوانی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، وہ کراچی کے اسلامیہ لاء کالج کی طلبہ یونین کے عہدیدار رہے۔ انھوں نے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے کی کوششوں میں حصہ لیا۔ اختر حسین آج کل عوامی ورکرز پارٹی کے صدر ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں اسیر سیاسی کارکنوں کی داد رسی کے لیے عدالتوں میں مقدمات لڑنے شروع کیے۔

جب ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور نیپ کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان، علی بخش تالپور وغیرہ کو سازش کیس میں ملوث کیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے معروف ہوا تو اختر حسین صفائی کے وکلاء کے پینل میں نوجوان وکیل کے طور پر شامل تھے۔ صفائی کے وکلاء کے پینل میں محمود علی قصوری اور بیرسٹر ایس اے وجود جیسے نامور وکلاء شامل تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن طالب علم رہنما پر نذیر عباسی کو ٹارچرکیمپ میں شہید کیا گیا تو اختر حسین نے ان کی بیوہ حمیدہ گانگھرو کے وکیل کی حیثیت سے نذیر عباسی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کی مسلسل کوشش کی۔

کراچی کی خصوصی فوجی عدالت میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی اور سہیل سانگی وغیرہ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو اختر حسین نے پھر ان سیاسی اسیروں کی پیروی کا فریضہ انجام دیا۔ اختر حسین نے وکلاء کی تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1973 کے آئین کی بحالی کی تحریک میں کئی ماہ کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل رہے مگر جب افتخار چوہدری نے عدالتی آمریت قائم کی تو انسانی حقوق کی تحریک کی عظیم قائد عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مل کر وکلاء کا انڈیپنڈنٹ گروپ منظم کیا۔

 اختر حسین پاکستان بار کونسل کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے رکن تھے اور ایک عرصے سے نمایندگی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکیا تو اس وقت اختر حسین ان وکلاء میں شامل تھے جنھوں نے اس ریفرنس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ جب سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے جونیئر ججز سپریم کورٹ میں لانے کے لیے قانون تیار کیا تو اختر حسین اس کے حق میں نہیں تھے۔ جب گزشتہ سال پارلیمنٹ نے آئین میں 26 ویں ترمیم منظورکی اور ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے علاوہ بار کونسل اور سیاسی جماعتوں کی نمایندگی بڑھا دی گئی۔

جوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سینیارٹی کے بجائے Stability کا اصول اپنایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ میں آئینی بنچ کی تشکیل کے لیے یہی اصول اختیارکیا گیا۔ وزارت قانون نے آئینی ترمیم کے بعد نئے قانون کے مطابق تین ہائی کورٹس سے سینئر ججز کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ سے آنے والے سینئرجج جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگرکو اسلام آباد ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقررکیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے اپنی سینیارٹی متاثر ہونے پر سپریم کورٹ میں عرضداشت بھی داخل کی۔

ان حالات میں اختر حسین جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے الگ ہوگئے۔ انھوں نے چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک صفحہ کا بھی خط تحریرکیا۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ججوں کے تقرر میں پیدا ہونے والے تنازعات کی بناء پر وہ جوڈیشل کمیشن کے رکن کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔ اس بناء پر انھوں نے کمیشن سے مستعفیٰ ہونے کو بہتر جانا حالانکہ اختر حسین نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کے سب سے اجلاسوں میں شرکت کی۔

ان اجلاسوں میں سپریم کورٹ کے 7 ججوں اور ہائی کورٹس کے 36 ججوں کا تقرر عمل میں آیا۔ جب پارلیمنٹ نے 26 ویں ترمیم منظور کی تو مختلف افراد نے اس ترمیم کو عدالتوں میں چیلنج کیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ان پٹیشنز کو رد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ججزکے تقرر کا عمل جاری ہے۔ ادھر پاکستان بار کونسل نے جوڈیشنل کمیشن کے لیے اپنے نئے نمایندہ سینئر وکیل احسن بھون کا انتخاب کیا ہے۔

 ادھر واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کی رپورٹ کے انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کے تناظر میں پاکستان کا نمبر 3 پوائنٹ کم ہوگیا ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے 63 ممالک میں پاکستان کا منفی نمبر بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ 10برسوں میں بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں پر قدغن لگی ہے۔ اگرچہ وزیر قانون سینیٹر اعظم تارڑ نے جنیوا میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی مستحکم ہے اور ریاست عوام کے بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کا تحفظ کررہی ہے مگر عالمی ادارے کی یہ رپورٹ تلخ حقائق کا اظہار کررہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن کے سپریم کورٹ کے تو اختر حسین ہائی کورٹ اور سیاسی پارٹی کے انھوں نے کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24جولائی 2025) تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی نے ملک میں آئین و قانون کی بحالی،منصفانہ انتخابات اورعام آدمی کے حقوق کے تحفظ کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان کردیا، ہم ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن، آئین کی بالادستی، اور عام شہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے پرعزم ہیں،اسلام آبادمیں محمود خان اچکزئی نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ یہ اتحاد کسی کھیل تماشے کیلئے نہیں بلکہ سنجیدہ قومی جدوجہد کیلئے بنایا جا رہا ہے۔

ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں ایک بڑے اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہیں۔نہ ہم گالی دے رہے اور نہ ڈنڈا مار رہے ہیں۔ ہم آئین کی بات کر رہے ہیں۔محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ 31 جولائی اور 1 اگست کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جا رہی ہے جس میں ملک کی تمام جماعتوں کو دعوت دی جائے گی تاکہ ملکی حالات پر سنجیدہ غور کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

اگر ابھی مسائل کو حل نہ کیا گیا تو صورتحال مزید کشیدہ ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا لیکن ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ جس جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ لئے اسی کو انصاف سے محروم رکھا جا رہا ہے اور بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت بھی صرف مخصوص افراد کو دی جا رہی ہے جب کہ ان کی بہنوں کو بھی ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔محمود اچکزئی نے کہا کہ ہم کسی فوجی افسر کے مخالف نہیں لیکن ہر شخص کو آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تحریک صرف تحریک انصاف کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری صفوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں اور یہ تحریک عام آدمی کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہے۔سلمان اکرم راجہ نے اعلان کیا کہ 5 اگست کو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا تاکہ قوم کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ آئین، انصاف اور جمہوریت کیلئے جدوجہد جاری رہے گی۔

انہوں نے کہاکہ یہ قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، اور ہم یہ مذاق مزید برداشت نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن صرف اس جماعت سے تعلق کی بنیاد پر اس کے رہنماؤں کو دس دس سال کی سزائیں دی جا رہی ہیں جو انصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں آزادیِ اظہار پر قدغن ہے۔لوگ آزادی سے نہ بول سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی گزشتہ دو سال سے قید میں ہیں۔ فئیر ٹرائل ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں کو یہ سہولت مہیا کی جائے۔ 

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں 13 کروڑ کی ڈکیتی میں ملوث ٹک ٹاکر بہن بھائی پھر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے
  • جمائما کا سیاسی فیصلہ، قاسم و سلیمان پاکستان سے روک دیا
  • تحریک انصاف کا 5 اگست کی تحریک شروع کرنے کا پلان تیار
  • عدلیہ کیلئے ماہر اور سیاسی وابستگی نہ رکھنے والے نوجوان وکلاء کو سامنے لایا جائے گا، چیف جسٹس
  • سپریم کورٹ نے ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قراردیدی
  • یقین دلاتا ہوں ہر ایمان دار جوڈیشل افسر کے ساتھ کھڑا ہوں گا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  •   خواب ہے سائلین اعتماد کے ساتھ حصول انصاف کے لیےعدالت آئیں : چیف جسٹس
  • سپریم کورٹ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا