کیا 1951میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جسٹس جمال مندوخیل کا حامد خان سے استفسار
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 1951میں آرمی ایکٹ موجود تھا؟، حامد خان نے کہا کہ پاکستان میں 1911کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،حامد خان نے کہاکہ آرمی ایکٹ1952میں پہلی ترمیم 1967میں ہوئی،تاشقندمعاہدہ کے بعد لاہور میں ایک سیاسی میٹنگ ہوئی،پہلا مقدمہ 1951میں راولپنڈی سازش پر بنا، جسٹس حسن اظہر نے کہاکہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا، حامد خان نے کہاکہ ملزمان پر کیس چلانے کیلئے راولپنڈی سازش سپیشل ٹرائل ایکٹ1951متعارف کرایا گیا، راولپنڈی سازش کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نطام نافذ کرنا تھا، راولپنڈی سازش کے ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلین افراد شامل تھے،راولپنڈی سازش کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوا بلکہ سپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کافی فیصلہ ہوا۔
سنگجانی جلسہ کیس؛عمرایوب، زرتاج گل کی درخواست ضمانت کنفرم
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا 1951میں آرمی ایکٹ موجود تھا، حامدخان نے کہا کہ پاکستان میں 1911کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کیا سپیشل ٹریبونل صرف راولپنڈی سازش ٹرائل کیلئے بنایا گیا، حامد خان نے کہاکہ نکتہ یہ ہے راولپنڈی سازش میں اعلیٰ سویلین و غیر سویلین افراد شامل تھے،راولپنڈی سازش کیس ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں سپیشل ٹریبونل میں ہوا، ملٹری کورٹ پہلی بار 1953 میں تشکیل دی گئی،1953میں لاہور میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو شہر کی ھد تک مارشل لا لگایا گیا، ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کیلئے ملٹری کورٹس بنیں،مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی جیسے لوگوں پر کیسز چلے،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ بعد میں انہیں معافیاں بھی مل گئی تھیں۔
لیبیا کشتی حادثے میں ملوث اہم ملزم گرفتار
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: راولپنڈی سازش ا رمی ایکٹ نے کہاکہ
پڑھیں:
پنجاب کی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی گورننگ باڈیز میں ایم پی ایز کی نمائندگی لازمی قرار
لاہور:پنجاب کی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی گورننگ باڈیز میں ایم پی ایز کی نمائندگی لازمی قرار دیدی گئی، پنجاب اسمبلی نے یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹ لاز ترمیمی بل 2025ء منظور کیا جس پر آج گورنر نے دستخط کردیے اور یہ ایکٹ بن گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں سے متعلق قوانین میں ترمیم کی پنجاب اسمبلی نے منظوری دی، ترمیمی بل کے تحت مختلف ایکٹ اور آرڈیننسز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، پنجاب کی تمام سرکاری و نجی یونیورسٹیوں کے گورننگ باڈیز میں ایم پی ایز کی نمائندگی لازم قرار دیدی گئی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ ہر یونیورسٹی بورڈ میں تین ایم پی ایز، جن میں کم از کم ایک خاتون رکن شامل ہوگی، ایم پی ایز کی نامزدگی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کریں گے، تمام ترمیم شدہ ایکٹ میں بورڈز میں ایم پی ایز کی شمولیت کو قانونی حیثیت دی گئی ہے، بعض اداروں میں خواتین ایم پی ایز کی تعداد ’’ایک‘‘ سے بڑھا کر ’’تین‘‘ کر دی گئی۔
بل کے مطابق یونیورسٹی آف پنجاب، ایگری کلچر فیصل آباد، یو ای ٹی لاہور ایکٹ میں ترمیم کردی گئی ہے۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، یو ای ٹی ٹیکسلا ایکٹ میں ترمیم منظور ہوگئی ہے۔
ایریڈ ایگری کلچر راولپنڈی، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، ویٹرنری یونیورسٹی لاہور کے قوانین میں ترامیم منظور ہوگئی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کنیرڈ کالج، یونیورسٹی آف سدرن پنجاب ایکٹ میں ترمیم منظور ہوگئی۔
نجی اداروں جیسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ، قرشی یونیورسٹی، ٹائمز انسٹی ٹیوٹ ایکٹ میں بھی تبدیلیاں کردی گئی ہے۔ ترمیمی بل فوری نافذ العمل ہوگا اور تمام متعلقہ اداروں میں اس کا فوری اطلاق ہوگیا ہے