سدھو کی کمنٹری کا کارٹون ورژن: شائقین ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ!
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
کرکٹ کی دنیا میں نوجوت سنگھ سدھو صرف ایک سابق کھلاڑی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسے کمنٹیٹر ہیں جن کی جملے بازی نے کرکٹ شائقین کو کئی برسوں سے ہنسنے اور سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ اب ان کی مزاحیہ اور انوکھی کمنٹری کو کارٹون کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جس نے سوشل میڈیا پر طوفان مچا دیا ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو کی کمنٹری کا اپنا ہی ایک انداز ہے۔ وہ جب بھی مائیک پر آتے ہیں، تو ان کے جملے کبھی کیلے کی طرح مڑتے ہیں، تو کبھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ ان کی کمنٹری سن کر کرکٹ شائقین اکثر سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ’’یہ کیا کہہ گئے؟‘‘ لیکن تھوڑی دیر بعد ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: "نائنٹیز کے میگا سپر اسٹارز ہمیں متاثر نہیں کرسکے"
حال ہی میں انسٹاگرام صارف کیتن پال نے سدھو کی کمنٹری کے چند مشہور جملوں کو کارٹون کی شکل میں ڈھالا ہے۔ اس ویڈیو میں سدھو کے بیانات کو انتہائی مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، جسے دیکھ کر کرکٹ شائقین ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
کارٹون ورژن میں سدھو کے مشہور جملے
’’تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے‘‘
’’کیلے کی طرح مڑی یہ گیند‘‘
’’اناج بکھرا، مرغی خوش‘‘
’’باپو بچپن میں کنچے ضرور کھیلتے رہے ہوں گے‘‘
’’ہاردک پانڈیا کی پونچھ اونچی‘‘
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جسے 5 لاکھ سے زیادہ لائیکس اور لاکھوں ویوز مل چکے ہیں۔ صارفین نے ویڈیو پر اپنے تبصرے بھی شیئر کیے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا، ’’ہاہاہاہا، میں ورلڈ کپ کے بعد یہ کمنٹری بہت مس کر رہا تھا۔‘‘ جبکہ ایک اور صارف نے کہا، ’’لوگ کتنا بھی عجیب بولیں، پر مجھے تو مزہ آتا ہے سدھو پاجی کی کمنٹری سننے میں۔‘‘
مزید پڑھیں: صائم ایوب، فخر زمان اسکواڈ میں کیوں نہیں، کیا پی ایس ایل کھیلیں گے؟
نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا ہے کہ ’’کرکٹ میرا پہلا پیار ہے۔ اگر آپ کا پیار ہی آپ کا پروفیشن بن جائے، تو اس سے بہتر اور کیا چاہیے؟‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایک بطخ کبھی بھی تیرنا نہیں بھول سکتی۔ میں کمنٹری کو اسی طرح دیکھتا ہوں، جیسے کہ ایک مچھلی پانی کو اپنے لیے اہم سمجھتی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے کرکٹ کیریئر میں ٹیسٹ میں 3,202 اور ون ڈے میں 4,413 رنز بنائے۔ 17 سال کرکٹ کھیلنے کے بعد 1999 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی، لیکن ان کی کمنٹری نے انہیں کرکٹ کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا ہے۔
مزید پڑھیں: رضوان کی کپتانی "فراری سے رکشے" پر آگئی ہے
سدھو کی کمنٹری کا کارٹون ورژن نہ صرف مزاحیہ ہے، بلکہ یہ ان کی انوکھی سوچ اور حاضر دماغی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر آپ نے ابھی تک یہ ویڈیو نہیں دیکھی ہے، تو فوراً دیکھیں اور ہنسنے کےلیے تیار ہوجائیں!
View this post on InstagramA post shared by Ketan Pal (@midnight.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سدھو کی کمنٹری کی طرح
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)