اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سرکاری افسران کے اثاثہ جات ڈیکلیئر کرنے کیلئے ستمبر تک کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی۔

 نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر اثاثے ڈیکلیئر کرنے کیلئے ڈیجیٹل پورٹل لانچ کیا جائے گا، وزارت خزانہ اور کابینہ ڈویژن کا سرکاری افسران کے اثاثوں کو ڈیکلیئر کرنے کا تیار ڈرافٹ آئی ایم ایف کو دیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ ریونیو شارٹ فال ختم کرنے کیلئے منی بجٹ نہ لانے پر اتفاق کیا گیا ہے، ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے سپر ٹیکس سے 157 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں، پلان کے مطابق شارٹ فال پورا کرنے کیلئے عدالتوں میں ٹیکس مقدمات جلد نمٹائے جائیں گے، زیر سماعت ٹیکس کیسز جلد سماعت کیلئے وزیراعظم آفس کی معاونت ہوگی۔

آپ کو کیا پریشانی ہے؟اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ناموں کی درستگی کیلئے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوط 

ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ایکسٹرنل فنانسنگ اور ٹیکس پالیسی یونٹ کے آپریشنالائزیشن پلان پر مذاکرات جاری ہیں، مہنگائی، خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ، نیشنل اکاؤنٹس پر مذاکرات کئے جا رہے ہیں، لیبر فورس سروے، فیملی بجٹ سروے، لیونگ سٹینڈرڈ پر مذاکرات میں رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، آئی ایم ایف وفد سے بجلی و گیس ٹیرف اور گردشی قرضہ پر بھی اہم مذاکرات ہوئے ہیں۔

آج سرکاری افسران کے اثاثوں کو ڈیکلیئر کرنے کیلئے مسودے پر مذاکرات ہوں گے جس میں سرکاری افسران کے اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا تیار ڈرافٹ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو دیا جائے گا۔
 

پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں کی تفصیلات کیلئے دائر درخواست پر وفاقی حکومت نے جواب عدالت میں جمع کروا دیا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سرکاری افسران کے پر مذاکرات ایم ایف

پڑھیں:

پاکستان کی معیشت اہم موڑ پر: فارما انڈسٹری کیلئے ٹیکس اصلاحات ناگزیر

پاکستان کی معیشت ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی سطح پر بدلتے ہوئے حالات اور ملکی مالی دباؤ کے پیشِ نظر برآمدات کو بڑھانا، درآمدات پر انحصار کم کرنا اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے۔

بزنس ریکارڈر میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوا سازی کی صنعت جو اکثر پالیسی سازوں کی توجہ سے محروم رہی ہے، محض صحت کی سہولت فراہم کرنے والی صنعت نہیں بلکہ ایک ممکنہ بڑی برآمداتی قوت بھی ہے۔ مگر اس صلاحیت کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ترقی پسند، مخصوص اور نمو کو فروغ دینے والی ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں۔

بدقسمتی سے موجودہ ٹیکس نظام اس شعبے میں سرمایہ کاری، ازسرنو سرمایہ کاری اور وسعت کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ برآمدی دوا ساز ادارے بھاری ٹیکس بوجھ کا سامنا کر رہے ہیں۔ جہاں پہلے صرف برآمدی آمدن پر 1 فیصد ٹیکس تھا، اب ان کمپنیوں کو منافع پر 29 فیصد کم از کم ٹیکس اور بعض صورتوں میں سپر ٹیکس بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی منڈیاں سخت مسابقت کا شکار ہیں اور دیگر ممالک اپنی برآمدی صنعتوں کو بھرپور تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور دور اندیش ٹیکس ریلیف منصوبہ پیش کیا گیا ہے تاکہ دوا سازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے اور اسے ایک تیز رفتار برآمدی صنعت میں بدلا جا سکے۔

اس منصوبے کا مرکزی نکتہ ان دوا ساز برآمدی یونٹس کے لیے ٹیکس کریڈٹ کی سہولت ہے جو سالانہ طور پر ترقی دکھائیں۔ یہ سہولت برآمد کنندگان پر مالی دباؤ کم کرے گی اور مصنوعات کی ترقی، قانونی تقاضوں کی تکمیل اور نئی منڈیوں میں داخلے کے لیے سرمایہ کاری کو ممکن بنائے گی۔

اس کے متبادل کے طور پر ایک درجہ بندی پر مبنی ٹیکس کریڈٹ سسٹم متعارف کروایا جا سکتا ہے جو بتدریج برآمدات میں اضافے سے منسلک ہو۔ مثال کے طور پر 5 تا 10 فیصد اضافہ کرنے والی کمپنیوں کو 5 فیصد ٹیکس ریلیف، 11 تا 15 فیصد والوں کو 10 فیصد، 16 تا 20 فیصد والوں کو 15 فیصد، اور 20 فیصد سے زائد اضافہ کرنے والی کمپنیوں کو 20 فیصد ٹیکس ریلیف دیا جائے۔

عالمی معیار پر پورا اترنے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی سہولت دی جانی چاہیے تاکہ پاکستانی کمپنیاں ترقی یافتہ ممالک کی دوا ساز منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ اس وقت تیز رفتار ڈیپریسی ایشن کی سہولت صرف مشینری تک محدود ہے۔ تجویز ہے کہ جو کمپنیاں برآمدی منڈیوں میں داخلے کے لیے پلانٹس کی اپ گریڈیشن میں سرمایہ کاری کریں، انہیں تیز رفتار ڈیپریسی ایشن یا مکمل سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ دیا جائے۔

ایک اور اہم مسئلہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 4C کے تحت لاگو ”سپر ٹیکس“ ہے، جو ابتدائی طور پر عارضی قدم کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب یہ مستقل بوجھ بن چکا ہے۔ تجویز ہے کہ دوا ساز برآمدات سے حاصل شدہ آمدن کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

اسی طرح ایسی صنعتیں جو برآمدات کو فروغ دیتی ہیں یا درآمدی اشیاء کا متبادل فراہم کرتی ہیں، انہیں اس ٹیکس سے مکمل استثنیٰ یا خاطر خواہ ریلیف دیا جائے۔ ٹیکس میں ریلیف دے کر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی صنعتی ترقی اور اختراع کے لیے ناگزیر ہے۔

پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ عالمی معیشت میں سرمایہ ان ممالک کا رخ کرتا ہے جہاں مالیاتی نظام مستحکم اور پرکشش ہو۔ اس تناظر میں تجویز ہے کہ مالی سال 2025-26 کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کو 28 فیصد تک کم کیا جائے اور آئندہ پانچ سالوں میں اسے سالانہ 1 فیصد کمی کے ساتھ 25 فیصد تک لایا جائے۔ اس سے نہ صرف علاقائی ہم پلہ ممالک سے ہم آہنگی پیدا ہوگی بلکہ سرمایہ کاروں کو اعتماد بھی ملے گا۔

ایک اور اہم پہلو ”منی ٹیکس کیری فارورڈ“ کا طریقہ کار ہے۔ اس وقت سیکشن 113 کے تحت زائد ادا شدہ ٹیکس کو صرف تین سال کے لیے کیری فارورڈ کیا جا سکتا ہے، جو کہ پہلے پانچ سال تھا۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نئی صنعتوں، خصوصاً دوا سازی پر پڑا ہے جہاں تحقیق، ترقی اور قانونی منظوریوں میں طویل وقت لگتا ہے۔ تجویز ہے کہ پانچ سالہ مدت بحال کی جائے تاکہ ابتدائی مراحل میں کاروباری دباؤ کم ہو۔پہلے، جب ایڈوانس ٹیکس ادا کر دیا جاتا تھا تو کمپنیوں کو 100 فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوتا تھا، مگر 2024 کے مالیاتی قانون کے بعد یہ سہولت 80 فیصد تک محدود کر دی گئی، جس سے کمپنیوں کی نقدی روانی متاثر ہوئی۔ تجویز ہے کہ مکمل استثنیٰ بحال کیا جائے تاکہ کاروباری سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔

او آئی سی سی آئی نے ڈریپ رجسٹرڈ دوا ساز مصنوعات کے لیے سیلز ٹیکس کی زیرو ریٹنگ کی بحالی، پیکنگ میٹریل اور تشخیصی کٹس کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی بھی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ فاسٹر سسٹم کے تحت سیلز ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر بھی صنعت کے لیے نقدی کے مسائل پیدا کر رہی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔

او آئی سی سی آئی نے مزید تجویز دی ہے کہ درآمد شدہ تیار شدہ دوا ساز اور تشخیصی مصنوعات پر بارہویں شیڈول کے تحت لاگو 3 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ ٹیکس عملی طور پر 4 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جو کہ آٹھویں شیڈول میں دیے گئے 1 فیصد فائنل ٹیکس کے اصول سے متصادم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چھٹے شیڈول کے اندراج نمبر 166 کے تحت دی گئی سیلز ٹیکس چھوٹ کو صرف خیراتی ہسپتالوں تک محدود رکھنے کے بجائے سرکاری اداروں، محکموں اور ہسپتالوں تک توسیع دی جائے۔

اس کے علاوہ سینٹرل ریسرچ فنڈ (CRF) کے ڈھانچے اور استعمال پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی اہداف اور ریگولیٹری ترقی سے ہم آہنگ تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔ دوا ساز کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سی آر ایف فنڈز کو براہ راست ہائی امپیکٹ تحقیق پر خرچ کر سکیں تاکہ عالمی منڈیوں کے لیے درکار سخت معیارات پر پورا اترا جا سکے۔

اسی طرح ورکرز ویلفیئر فنڈ (2 فیصد) اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن فنڈ (5 فیصد) کا نظام بھی اصلاح طلب ہے۔ تجویز ہے کہ ان فنڈز کو سرکاری اداروں کے بجائے کمپنیوں کو خود ملازمین کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی اجازت دی جائے، تاکہ احتساب اور مؤثریت بڑھائی جا سکے۔

تجویز نہایت سادہ ہے: بااعتماد کمپنیوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ حکومت کی نگرانی میں اپنے ملازمین کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود پر یہ فنڈز براہ راست خرچ کر سکیں۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف امدادی اقدامات کو بہتر طریقے سے ہدف بنایا جا سکے گا بلکہ شفافیت اور جوابدہی میں بھی اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں ملازمین کی اطمینان اور پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔

دوا سازی کی صنعت صرف دوا بنانے کا شعبہ نہیں بلکہ یہ صحت عامہ کی ضمانت، جدت کا محرک، روزگار کی فراہمی اور زرمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ ایک مضبوط، برآمدی دوا ساز صنعت پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ترقی کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ اسے سزا دیں۔

یہ تجاویز کوئی مطالبات نہیں بلکہ ایسی حکمت عملی ہے جو ایک مضبوط اور مسابقتی پاکستان کے قیام کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ کارکردگی پر مبنی، مراعاتی ٹیکس فریم ورک اپنا کر ہم اپنے دوا ساز شعبے کو ترقی کا موقع دے سکتے ہیں، جو نہ صرف برآمدات میں اضافہ کرے گا بلکہ معیشت کو وسعت دے گا، تجارتی خسارے کو کم کرے گا اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنائے گا۔

اب وقت ہے کہ پاکستان دانشمندانہ اور دلیرانہ مالی اصلاحات کی جانب قدم بڑھائے۔ اپنی صنعتوں پر اعتماد کریں، ترقی کو انعام دیں اور اس صلاحیت کو بیدار کریں جو طویل عرصے سے سوئی ہوئی ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • 190 ملین پاؤنڈ کیس: بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
  • نئے بجٹ میں سولر پینلز کی درآمد پر اضافی ٹیکس لگانے کا فیصلہ نہیں ہوا، چیئر مین ایف بی آر
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بڑی پیشرفت، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بڑی پیشرفت: اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر
  • گنڈاپور کے اہم پیغام کے باوجود عمران خان نے مذاکرات کا راستہ چننے سے انکار کر دیا 
  • آئی ایم ایف کا ریونیو بڑھانے کیلئے ٹیکس نادہندگان کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا مطالبہ
  • آئی ایم ایف کی ریونیو بڑھانے کیلئے وفاقی بجٹ کیلئے سخت تجاویز، عوام کیلئے مہنگائی کا نیا طوفان تیار
  • آئی ایم ایف کی ٹیکس قوانین پر عملدرآمد بڑھانے کیلئے مزید سخت اقدامات کی تجویز
  • پاکستان کی معیشت اہم موڑ پر: فارما انڈسٹری کیلئے ٹیکس اصلاحات ناگزیر
  • ایف پی آر کو 833ارب کا شارٹ فال ، ہدف پوراکرنے کیلئے انفور سمنٹ مزید سخت